لندن (نیوزڈیسک )سائنسدان روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار فی سیکنڈ بتاتے ہیں، یہ رفتار کس قدر زیادہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ روشنی لندن سے نیویارک کے فاصلے کو ایک سیکنڈ میں 50 سے زیادہ مرتبہ طے کر لیتی ہے۔
تاہم اگر بالفرض ایک صاحب مریخ پر ہوں اور وہ زمین پر کسی صاحب سے بات کرنا چاہیں تو روشنی کی رفتار کے ساتھ اس مواصلات کے ذریعے انہیں اپنی بات پہنچانے میں 12.5 منٹ لگ جائیں گے۔ واضح رہے کہ سیارہ زمین اور مریخ کے درمیان 22 کروڑ 53 لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ زمین سے روانہ کیا گیا وائجر اسپیس کرافٹ اس وقت نظامِ شمسی کے انتہائی کنارے پر پہنچ چکا ہے، یعنی اس کا زمین سے فاصلہ تقریبا 19.5 ارب کلومیٹر ہے۔ خلائی سائنسدانوں کو زمین سے وائجر تک اپنا پیغام پہنچانے میں 18 گھنٹے کا وقت لگ جاتا ہے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ سائنسدان روشنی سے زیادہ رفتار حاصل کرنے کی جستجو میں ہیں۔ کائنات میں فاصلے اس قدر زیادہ اور عقل کو حیران کردینے والے ہیں کہ اگر ہم اپنا پیغام روشنی کی رفتار سے بھی ارسال کریں تو اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔
تاہم بی بی سی کی ایک سائنسی رپورٹ کے مطابق روشنی سے زیادہ رفتار کا حصول طبیعیات کے متعین کردہ قوانین کو توڑے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لیکن سائنسدانوں نے اس حوالے سے کوششیں شروع کردی ہیں، اور امید کی جارہی ہے کہ روشنی سے بھی تیز رفتار مواصلات حاصل کرلی جائے گی۔ سائنسدانوں نے اب تک روشنی سے تیز رفتار کے حصول کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ اب تک انسان نے زمین سے باہر سب سے زیادہ فاصلہ چاند تک طے کیا ہے، جو تقریبا 384،400 کلومیٹر ہے۔ روشنی کو یہ فاصلے طے کرنے میں محض 1.3 سیکنڈ کا وقت لگتا ہے۔ اگر بالفرض چاند پر موجود کسی سے خلانورد سے روشنی کی رفتار سے پیغام رسانی کرے تو اتنا ہی وقت خرچ ہوگا۔ یہ فرق نہایت معمولی ہے۔ لہذا اس حوالے سے میں تو روشنی سے زیادہ کی رفتار سے مواصلات کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر انسان مریخ کا سفر کرتا ہے تو زمین پر موجود سائنسدانوں کے ساتھ اس کو کمیونیکیشن میں ساڑھے بارہ منٹ کا وقت لگے گا، لیکن شمسی نظام کے بیرونی علاقے میں موجود وائجر سے ہمہ وقت رابطہ قائم رکھنے کے لیے روشنی سے زیادہ رفتار کی مواصلات کی ضرورت پڑجائے گی۔
ہماری کہکشاں سے سب سے قریب سپرکلسٹر الفا سینٹوری زمین سے 40 ٹرلین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگر وہاں سے کوئی پیغام زمین کی جانب ارسال کیا جائے تو اس کو زمین تک پہنچنے میں 4 سال کا وقت درکار ہوگا۔ ایسے میں مواصلات کا روایتی نظام بہت زیادہ مفید ثابت نہیں ہوگا۔ آئن اسٹائن تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے مطابق کوئی بھی چیز روشنی سے تیز رفتار کے ساتھ حرکت نہیں کرسکتی۔ایسا اس لیے ہے کہ روشنی کی رفتار دائمی ہے۔ کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے لیس ڈوئچے نے ناسا کے خلائی ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم میں کئی برس تک کام کیا ہے۔ لیس ڈوئچے کہتے ہیں کہ طبیعیات کے بنیادی اصولوں پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا بھر میں روایتی کمیونیکیشن کے تمام سسٹم میں ریڈیو لہروں سے مدد لی جاتی ہے، جو خلا روشنی کی رفتار سے فاصلہ طے کرتی ہیں۔ گوکہ آپٹیکل لیزر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہوچکا ہے تاہم اب بھی یہ ترقی کے مراحل سے ہی گزر رہا ہے۔ لیس ڈوئچے کہتے ہیں کہ ہم فی الوقت ترسیل کی رفتار کو نہیں بڑھا سکتے لیکن ہم فی سیکنڈ بھیجے جانی والی اطلاعات کے حجم میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم کیریئر فریکوئنسی کو ہائی اسپیکٹرم کی طرف لے جارہے ہیں، آٹھ گیگا ہرٹزسے 30 گیگاہرٹز تک۔ سگنل کی فریکوئنسی زیادہ ہونے پر اس بینڈوتھ بھی بڑھ جائے گی اور فی سیکنڈ زیادہ سے زیادہ معلومات کو بھیجنا ممکن ہو سکے گا۔ اگرچہ مستقبل میں ایسے ذرائع کا پیدا ہونا ناممکن نہیں جس سے پیغامات کی رفتار میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔ لیس ڈیوئچے نے بتایا کہ ریلیٹیویٹی کے قانون میں وارم ہول جیسی چیز کی گنجائش ہوتی ہے، جس سے آپ خلائی وقت کو کم کر سکتے ہیں اور شارٹ ٹ اختیار کرسکتے ہیں۔ وارم ہول کو سمجھنے کے لیے ایک سادہ کاغذ پر دو نقطے لگائیے۔ دو نقطوں کے درمیان کم سے کم فاصلے کو ظاہر کرنے کے لیے آپ کو ایک سیدھی لکیر کھینچتے ہیں۔ یہ سب سے کم فاصلہ ہوگا۔ لیکن کاغذ موڑنے پر ممکن ہے کہ دونوں نقطوں کے درمیان کا فاصلہ مزید کم ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں نقطے ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہو جائیں۔ خلا میں اس طرح کی پوزیشننگ ممکن نہیں ہے۔ لیکن ایسا ہو جائے تو اس سے پیغامات کی سپیڈ بڑھ سکتی ہے لیکن مواصلات تب بھی تیز رفتار نہیں ہو گی۔ روشنی سے تیزرفتارکمیونیکیشن کے لیے دیگر آپشن پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ اس میں سے ایک ہے کوانٹم انٹیگلیمنٹ، یہ ایک عجیب خاصیت ہے، جس میں دو پارٹیکلز اپنی خصوصیات کا اشتراک کر سکتے ہیں اگرچہ ان کا درمیانی فاصلہ کس قدر ہی کیوں نہ ہو۔ جرمنی کے اسپیس کرافٹ آپریشن انجینئر ایڈ ٹرولوپے کہتے ہیں کوانٹم انٹیگلیمنٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ دو ذرات میں اگر ایک ذرے میں تبدیلی ممکن ہے تو دوسرے کی پوزیشن میں بھی تبدیلی ہوجائے گی۔ ایک دوسرے سے منسلک دو پارٹیکلز کے درمیان فوری طور پر مواصلات کی بات متوجہ کرتی ہے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس انٹیگلڈ پارٹیلز کا ایک جوڑا ہو، جس میں سے ایک پارٹیکل خلا میں ہمارے نظام شمسی کے سب سے بیرونی حصے میں اور دوسرا زمین پر۔ ایسے میں جگہ پارٹیکل میں کسی تبدیلی کا اثر اس کے دوسرے حصے پر زمین پر فوری طور پر ظاہر ہوگا۔
لیکن ٹرولوپے کے مطابق جب تک اسے اسپیس کرافٹ سے پیغام نہیں موصول ہو گا زمین پر موجود ذرہ کی نگرانی کرنے والے کو ان تبدیلیوں کا پتہ نہیں چل سکے گا، اور یہ پیغام روشنی کی رفتار سے ہی موصول ہوگا۔ اس کے علاوہ کچھ غیر حقیقی ذرات کے وجود کے حوالے سے بھی غور کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ اسٹار ٹریک فلموں میں دکھایا گیا تھا کہ ٹیکیونز پارٹیکلز کا وجود ممکن ہے۔ تھیوری آف ریلیٹیویٹی کا اصول بھی ٹیکیونز کے وجود کو مسترد نہیں رتا۔ چنانچہ اگر ایسا ذرہ ہو جو روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کرتا ہے تو بھی اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ روشنی کی رفتار سے تیز رفتار سے مواصلات ممکن ہوگا۔ ٹرولوپ کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان ذرات کی رفتار روشنی سے بھی تیز ہو لیکن اگر وہ آپس میں کشش نہیں کرتے تو انٹرایکٹو نہ ہونے کی وجہ سے یہ ذرہ بھی مواصلات میں مفید ثابت نہیں ہو گا۔ ویسے اگر روشنی سے تیز رفتار سے مواصلات ممکن ہوئی تو اس سے اسپیس مشن پر بہت گہرا اثر پڑے گا۔ ٹرولوپ کہتے ہیں، روسیٹا (یوروپین خلائی ایجنسی) کی جانچ کے دوران ہمیں کوئی معلومات روشنی کی رفتار سے 30-40 منٹ کے بعد موصول ہوتی ہے، تو یہ وقت اس مشن کی ڈیزائننگپر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر زمین کے مدار میں موجودکسی سیٹلائٹ سے زمین پر پیغام پہنچنے میں 30 منٹ لگتے ہیں۔ پھر جو کمانڈ زمین سے دی جاتی ہے، اس کو سیٹلائٹ تک پہنچنے میں 30 منٹ مزید لگتے ہیں۔ یعنی، زمین سے کمانڈ کو انجام دینے میں کل ایک گھنٹے کا وقت لگ جاتا ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں سائنسی امکانات کی حد یہی ہے اور فی الحال تو روشنی سے تیز رفتار حاصل کر پانا ناممکن سا نظر آرہا ہے۔
کیا روشنی سے تیزرفتار کمیونیکیشن ممکن ہے؟
23
جون 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں