اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) 19 سال پہلے 9/11 نے اس وقت دنیا کو تبدیل کردیا تھا جب 19 عرب ہائی جیکرز نے چار طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر، نیویارک اور واشنگٹن میں پینٹا گون سے ٹکرادیے تھے، جس کے نتیجے میں 2977 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جس کے بعد امریکا نے افغانستان اور عراق میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی۔
جس پر 2020 تک 109 ارب ڈالرز خرچ کیے جاچکے ہیں مگر دنیا اب تک محفوظ نہیں ہے۔ سینئر صحافی حامد میر روزنامہ جنگ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔رواں برس دنیا پر ایک اور خطرناک حملہ ہوا ہے اور وہ ہے کورونا وائرس کا حملہ، جس نے ایک بار پھر پوری دنیا کو تبدیل کردیا ہے۔ اس کا آغاز جنوری، 2020 میں چین سے ہوا اور ابتدائی دو ماہ کے دوران اس نے 7 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کرنے کے ساتھ تقریباً 35 ہزار افراد کی جان لے چکا ہے۔ اس وائرس سے امریکا سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے البتہ سب سے زیادہ ہلاکتیں اب تک اٹلی میں ہوئی ہیں۔ سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ صورت حال اب سے بھی زیادہ خراب ہوگی۔ امپیریل کالج، لندن کی حالیہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے رواں سال 4 کروڑ افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں مریضوں کی تعداد میں اس لیے تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے کیوں کہ وہاں ٹیسٹ کی بہترین سہولیات موجود ہیں۔ جب کہ چین اور ایران میں ان سہولیات کا فقدان ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلا دیش اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں مارچ، 2020 کے اختتام تک شرح اموات بہت زیادہ نہیں ہے مگر مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ خطرے کی علامت ہے۔
دنیا کی جوہری قوتیں بھی کورونا وائرس کے آگے بےبس نظرآرہی ہیں ۔ اس نے امریکا کے سپر پاور ہونے کے غرور کو خاک میں ملادیا ہے جب کہ دیگر مغربی ممالک کی حقیقت بھی عیاں ہوچکی ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی کورونا وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے چین ، امریکا کی اقتصادی طاقت کو چیلنج کررہا تھا لیکن کورونا وائرس نے دونوں ممالک کی طاقت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ چین نے کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کا واحد حل لاک ڈائون نکالا ہے اور اب پوری دنیا اسی چینی ماڈل پر عمل پیرا ہے۔
ابتدائی طور پر چین اور امریکا ایک دوسرے پر اس وائرس کو پھیلانے کا الزام لگا رہے تھے۔ عراق کے ایک رہنما مقتدیٰ الصدر نے 11 مارچ کو ٹوئٹ کرکے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے دشمن ممالک میں کورونا وائرس پھیلا یا ہے۔ تمام جوہری قوتوں کی اسٹاک مارکیٹیں کریش ہوچکی ہیں۔ کاروبار بند ہیں۔ صرف تہجیز وتکفین کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اور امریکا کے سائنس دان 2007 سے کورونا وائرس کے خطرے سے آگاہ کررہے تھے مگر کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ اکتوبر، 2007 میں کلینیکل مایکروبائیلوجی ریویوز نامی مطالعہ شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین میں خطرناک وائرس کے حوالے سے صورت حال ٹائم بم جیسی ہے۔
امریکی سوسائٹی برائے مائیکروبائیولوجی کے اس جرنل میں جسے چار سائنس دانوں نے لکھا تھا جو کہ ہانگ کانگ کی یونیورسٹیوں میں کام کررہے تھے۔ ان میں سے ایک کیوک ینگ یوین کا تعلق چین سے تھا جس نے مختلف چینی ذرائع سے معلومات اکٹھی کی تھیں۔ اس نے واضح طور پر لکھا تھا کہ جنوبی چین میں چمگادڑوں سمیت دیگر ممالیہ کے کھانے کا رجحان ایک ٹائم بم ہے۔ انہوں نے سارس اور دیگر خطرناک وائرس کے لوٹ آنے کے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے بھی 2012 میں دوبارہ خبردار کیا تھا کہ امریکا کو دہشت گردی سے زیادہ خطرہ وبائی امراض سے ہے۔
لیکن امریکی پالیسی سازوں نے اسے نظرانداز کیا۔ وہ لوگ 100 ارب ڈالرز سالانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خرچ کررہے تھے۔ جب کہ وبائی امرض کے لیے صرف 1 ارب ڈالر رکھے جارہے تھے۔ بل گیٹس نے 2015 میں خبردار کیا تھا کہ ایبولا جیسے وبائی امراض ان کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں تھے کیوں کہ یہ ایک سال میں لاکھوں افراد کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ مگر انہیں بھی نظرانداز کیا گیا۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما کی ہوم لینڈ سیکورٹی ایڈوائزر لیزا موناکو نے ممکنہ وبائی امراض پر کچھ توجہ دی تھی مگر پھر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گئے۔ معروف امریکی میگزین اٹلانٹک نے 2018 میں خبردار کیا تھا کہ اگلا طاعون انفلوئنزا کی صورت میں آئے گا۔
امریکا کے جان ہاپکنز سینٹر برائے ہیلتھ سیکورٹی نے 2019 میں خبردار کیا تھا کہ چین سے ایک نیا وائرس آسکتا ہے مگر ٹرمپ انتظامیہ نے اسے نظرانداز کیا۔ جان ہاپکنز کے ماہرین نے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے ایک ارب ڈالرز اضافے کا مطالبہ کیا تھا ۔مگر ٹرمپ اسے بار بار نظرانداز کرتے رہے وہ سمجھتے تھے کہ صرف چین کو ہی اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ وہ کورونا وائرس کے بجائے صرف میڈیا پر توجہ مرکوز کیے رہے۔ اس میں چین اور امریکا دونوں نے غلطیاں کیں۔ کورونا وائرس پھیلنے کے بعد ٹرمپ نے امریکی معیشت اور اپنی قوم کی مدد کے لیے 20 کھرب ڈالرز مختص کردیئے لیکن پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے۔
ان کے لیے اگلا مشکل مرحلہ اقتصادی وبا کا ہوگا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے بہت سے ممالک میں بڑے پیمانے پر بےروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان اور بھارت نے مضبوط صحت کا نظام بنانے کے بجائے اسلحہ خریدنے میں زیادہ رقم خرچ کی۔ اب ہمیں اس جنگی جنون کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے۔ یہی وقت ہے کہ اب آپس کی لڑائی کو ختم کیا جائے اور مل کر کورونا وائرس کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ لکھنا آسان ہے کہ لڑائی جھگڑا ختم کیا جائے مگر اس پر عمل ہمارے رہنمائوں کے لیے مشکل ہے۔ درحقیقت ان کی انا ہمارے مشترکہ مسائل سے بڑی ہے۔
ایسا اس لیے کہا جارہا ہے کیوں کہ صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام نے سختی سے خبردار کیا ہے کہ پنجاب اور مرکز کی سیاست قیادت اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ 21 روز کے مکمل لاک ڈائون کے بغیر کورونا وائرس کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ اس لاک ڈائون سے معیشت کو ضرور نقصان پہنچے گا، مگر ہم اس سے ہزاروں قیمتی جانیں بچاسکتے ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ پنجاب میں لوگوں کی جانیں اس طرح جانے کا خدشہ ہے جیسے خزاں میں پتے جھڑتے ہیں۔
اگر حکومت نہیں جاگ رہی تو پاکستان کی عوام کو جاگنا چاہیئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ برا وقت ابھی آنا باقی ہے۔ انہوں نے فروری کے آغاز میں ہی حکومت پنجاب کو خط لکھا تھا مگر کوئی ان کی بات نہیں سن رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں آپ کو ڈرانا نہیں چاہتا مگر میرا خط اس حکومت کے لیے جلد سیاسی وبا بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس برے وقت کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمیں اس لیے نہیں جاگنا کیوں کہ آئندہ نو ماہ میں لاکھوں افراد جان کی بازی ہارسکتے ہیں بلکہ ہمیں اس لیے جاگنا ہوگا کیوں کہ ہماری سیاسی قیادت نااہل ہے۔