سرینگر(نیوز ڈیسک) 8 مارچ کو پوری دنیا میں یوم خواتین منایا جا رہا ہے ۔ اس موقع پر آزاد کشمیر سے بعض آبادکاری پالیسی کے تحت مقبوضہ کشمیر آئی ہوئی خواتین بھی حکومت سے فریاد کر رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان پر رحم کھا کر انسانی بنیادوں پر انہیں واپس آزاد کشمیر جانے کے لئے روٹ پرمٹ فراہم کیا جائے۔ 2010 میں حکومت نے 1990 کی دہائی یا پھر اس کے بعد عسکری صفوں میں شامل ہونے یا پھر عسکری تربیت لینے،
آزاد کشمیر جانے والے افراد کی باز آبادکاری کے لئے ایک پالیسی کا اعلان کیا تھا اور اس دوران ان سے کہا گیا تھا کہ وہ گھروں کو واپس آئیں۔ اگرچہ اس دوران سرنڈر اور بازآبادکاری پالیسی کے تحت 2003 سے 22 مئی 2016 تک 489 نوجوان اپنی بیوی بچوں سمیت نیپال اور دیگر راستوں سے واپس مقبوضہ کشمیر لوٹ آئے تاہم باز آبادکاری کی پالیسی دھوکہ ثابت ہوئی اور یہاں آکر وہ دانے دانے کے محتاج ہوگئے۔ آزاد کشمیر کی رہنے والی شرین بیگم جو اس وقت اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ سوپور میں رہتی ہے اور ان سینکڑوں خواتین کے لئے آواز بلند کر رہی ہیں جو 2010 میں باز آبادکاری پالیسی کے تحت پاکستان یا آزاد کشمیر سے یہاں لائی گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آزاد کشمیر میں ان کے اپنے اس عرصے میں فوت ہوگئے لیکن ہم فریاد کریں تو کس سے کریں کہ ہمیں اپنے وطن جانے کی اجازت دی جائے۔ شرین بیگم کہتی ہے کہ مجھے ہر روز کسی نہ کسی علاقے سے ایسی بے سہارہ اور بے بس خاتون کی روداد سننی پڑتی ہے جو دونوں اطراف کی حکومتوں کی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ کر اپنے آپ کو کوس رہی ہے۔ شرین بیگم کی طرح ہی مقبوضہ کشمیر کے کرناہ علاقے میں بیاہ کر لائی گئی پوش مالی بیگم کے علاوہ گزریال کی فاطمہ بیگم، کپوارہ بیاہ کر لائی گئی کوثر ابیگم، کے علاوہ رخسانہ بیگم یہ ایسی خواتین ہیں، جو اپنوں کی یاد میں دن رات آنسو بہاتی ہیں، ایسی خواتین کی یہی فریاد ہے کہ انہیں ویزا دیا جائے تاکہ وہ آزاد کشمیر میں اپنے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کا ایک بار دیدار کرسکیں۔
بمنہ میں اپنے خاوند اور بیٹے کے ساتھ رہ رہی ایک پاکستانی خاتون بھی ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہے، وہ کہتی ہے کہ یہاں ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، اپنے رشتہ داروں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ جب گھر والوں کی یاد آتی ہے تو من کرتا ہے ان سے فون پر رابطہ کروں لیکن یہاں سے وہاں فون رابطہ بھی نہیں ہوتا۔ جبکہ گھر والے مہینے میں کبھی کبھار ہی فون کر کے حال و احوال پوچھتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ ہم زندہ لاشیں بن گئی ہیں اور اس طرح پانچ سو سے زیادہ خواتین جو آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر آئی ہیں، ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو کر آزاد کشمیر میں اپنے ماں باپ اور دیگر گھر والوں کے تصور میں کھوئی رہتی ہیں۔