نئی دہلی( آن لائن )مقبوضہ کشمیرکی صورتحال پر انڈین ایڈمنسٹریشن سروس کے اعلی آفیسر احتجاجا مستعفی ہو گئے تھے۔جس کے بعد اب ایک اور بھارتی سرکاری افسر مستعفی ہو گئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف احتجاجا ایک اور بھارتی سرکاری افسر نے استعفی دے دیا ہے۔اس حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی شہر بنگلور کے ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے استفعی دے دیا۔
انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے پابندیوں کے خلاف استعفی دیا۔بھارتی سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ ان حالات میں سرکار کا حصہ نہیں رہ سکتا۔واضح رہے اس سے قبل انڈین ایڈمنسٹریشن سروس کے اعلی آفیسر احتجاجا مستعفی ہو گئے تھے۔ کنن گوپی ناتھن نے اپنے استعفے میں لکھا تھا کہ مقبوضہ کشمیرمیں20 دن سے مسلسل کرفیو نافذ ہے، یہ ریاستی جارحیت ہے۔لیکن میں سرکاری عہدہ رکھنے کے باعث ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند اور اپنی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا تھا، اب میں نے استعفا دے دیا ہے۔ اب میں اظہار رائے کیلئے آزاد ہوں۔ کنان گوپی ناتھن نے کہا کہ یہ 70 کی دہائی ہے اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر یمن ہے۔ آج کے دور میں کسی علاقے میں ایمرجنسی نافذ کرکے ریاستی طاقت کے ذریعے نہیں چلایا جاسکتا۔تشدد مسائل کا حل نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کے غیر آئینی اقدامات پر استعفی دینے والا بھارتی ایڈمنسٹریٹو سروس افسر کنن گوپی ناتھن نے اعلان بغاوت کر دیا تھا۔ بھارتی ایڈمنسٹریٹو سروس افسر کنن گوپی ناتھن نے کہا تھا کہ کسی بھی جمہوریت میں عوام سے احتجاج کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔انہیں مقبوضہ کشمیر کے عوام پر لگائی گئی اظہارِ رائے کی پابندی قبول نہیں ہے۔بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کنن گوپی ناتھن نے کہا ہے کہ اگر ادارے تباہ ہونے لگیں تو کسی نہ کسی کو آواز اٹھانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں آزادی کے اظہار کے بغیر زندگی کا کوئی مطلب نہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ممکنہ تشدد کے نام پر آزادی اظہار پر لگائی گئی پابندی کل بھارت کے کسی بھی حصے میں لگائی جا سکتی ہے۔کننن نے سوال اٹھایا کہ اگر کل دہلی میں شہریوں کو حاصل حقوق سلب کر لیے گئے تو کیا ہو گا؟۔انسانی جانیں بچانے کے نام پر لگائی گئی پابندیاں محض فریب ہیں۔ کیا کسی کو یہ کہہ کر جیل میں بند کیا جا سکتا ہے کہ یہ اس کی جان بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔