واشنگٹن۔۔۔۔امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملک کے امیگریشن نظام میں واضح تبدیلی لانے کا فیصلہ کر لیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق صدر اوباما بعض امریکی شہریوں کے والدین کو ملک بدر ہونے سے بچانے کے پروگرام کی مدت میں اضافہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ امیگریشن کے نظام میں اصلاحات کرنے سے مجموعی طور پر امریکہ میں بغیر قانونی دستاویزات کے رہائش پذیر 50 لاکھ افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر اوباما اس منصوبے میں توسیع کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت امریکہ میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والے نابالغ افراد کو ملک بدر کرنے سے بچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ منصوبے میں ان بچوں کے والدین کو بھی شامل کئے جانے کا منصوبہ ہے جو کہ امریکی شہری یا ان قانونی طور پر امریکی رہائشی ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد ملک بدری کی وجہ سے خاندانوں کو منقسم ہونے سے بچانا ہے۔ تجویز کردہ پالیسی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ کون کتنے عرصے سے امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر انتطامیہ منصوبے کو 10 سال سے امریکہ میں رہائش پذیر افراد تک محدود کرتی ہے تو اس صورت میں 25 لاکھ افراد کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ حزب اختلاف کی رپبلکن پارٹی نے اس منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدام صدر اوباما کے اختیارات سے باہر ہونے چاہئیں۔ سینیٹر جیف سیزنز نے کہا کہ مجوزہ اقدامات سے ملک کی عملداری کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ ایوان نمائندگان کے سپیکر اور رپبلکن جماعت کے رہنما جان بوہنیر نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر صدر اوباما نے یکطرفہ اقدام اٹھایا تو اس صورت میں امیگریشن اصلاحات کو کانگریس کے اندر طے کرنے کا امکان ختم ہو جائے گا۔ اپوزیشن کے علاوہ صدر اوباما کو اپنی جماعت کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے سینئر سینیٹر ہیری ریڈ نے صدر اوباما پر زور دیا ہے کہ 11 دسمبر کو کانگریس سے حکومتی بجٹ کی منظوری کے بعد ہی وہ یہ قدم اٹھائیں۔ اس سے پہلے صدر براک اوباما نے جون میں وعدہ کیا تھا کہ امیگریشن قوانین میں اصلاحات کے سلسلے میں اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کریں گے لیکن انھوں نے ستمبر میں قوانین کی حمایت کا ارادہ وسط مدتی انتخابات تک ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔