لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) آپ اپنی یادداشت کو عطائیوں یا نیم حکیموں کی دواؤں سے تیز نہیں کر سکتے۔ اس کے بجائے اپنی روزمرہ زندگی میں جن چیزوں یا انسانوں سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے انہیں بغور دیکھیں۔ آپ کا جن لوگوں سے تعارف کرایا جاتا ہے ،آپ ان کے نام یاد رکھنے کی کوشش کریں۔جب آپ کسی شخص کو، جس سے آپ کی ملاقات کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی، اس کے نام سے بلاتے ہیں۔
تو اس شخص کو گہری مسرت ہوتی ہے۔ اسے یہ خیال تسکین دیتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اسے یاد رکھا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نام کیسے یاد رکھے جائیں؟ اس کا جواب ہے کہ کسی شخص کے نام کو ہم مختلف حوالوں سے وابستہ کر کے ذہن نشین کر سکتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص منصف خان کا آپ سے تعارف کرایا جاتا ہے۔ آپ اس کے نام میں دلچسپی لیں اور اس سے اس کے نام کے معنی پوچھیں۔ آپ کو پتا چلے گا کہ اس نام کے معنی قانون کے کسی شعبے سے وابستہ ہیں۔ انصاف کرنے والے کو منصف کہا جاتا ہے۔ آپ اس شخص کو انصاف کرنے کے حوالے سے یاد رکھ سکتے ہیں۔دوسرے آپ اس سے وہ صفتیں وابستہ کریں جو اس شعبے سے متعلق افراد کا خاصہ ہوتی ہیں۔ جب آپ اس عمل کو اپنے ذہن میں ایک بار دہرائیں گے تو وہ شخص اور اس کا نام مدتوں تک نہیں بھولے گا۔ اگر یہ طریقہ غیر فطری معلوم ہو تو حافظہ تیز کرنے کے عمل پر غور کریں۔یادداشت تلازمۂ خیال کے ذریعے کام کرتی ہے۔ تلازمۂ خیال سے مراد یہ ہے کہ ذہن معلوم اشیا کو نامعلوم اشیا سے مربوط کرتا ہے اور بالکل یہی طریقہ آپ نے یہاں استعمال کیا ہے۔ جتنا تلازمۂ خیال آسان اور قدرتی ہو گا اتنا ہی اپنی یادداشت میں اضافہ کرنا آسان ہو جائے گا ۔ آپ فطری خطوط پر ذہن کی اس صلاحیت کی تربیت کر سکیں گے۔لوگ اکثر اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ ان کی یادداشت میں کمی ہو گئی ہے یا ان میں توجہ مرکوز کرنے کی قوت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص یادداشت کے عمل کو بہتر بنانے میں ناکام رہا ہو یا اسے اپنی قوتِ حافظہ یا قوتِ ارتکاز پر شبہ ہو۔ جب ہم اپنے کسی عضو کو استعمال نہیں کرتے تو وہ کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی صورت ہمارے دماغ کی ہے۔ جب ہم اپنے دماغ کے کسی شعبے سے پوری طرح کام نہیں لیتے تو اس کی کارکردگی
متاثر ہونے لگتی ہے۔ ہم میں بیشتر افراد ایسے موجود ہیں جو اپنی دماغی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال نہیں کرتے۔بعض لوگ اپنے دماغ پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے ، ہمارا دماغ ہمارے بہترین دوست کی مانند ہے۔ دماغ وہی کام کرتا ہے جو کام ہم اس سے لینا چاہتے ہیں۔جس طرح دوست کے خلوص پر شک اسے آپ سے بدظن کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے اسی طرح اپنی دماغی کارکردگی پر شک کرنے کا بھی اچھا نتیجہ نہیں نکلتا۔