ہفتہ‬‮ ، 01 مارچ‬‮ 2025 

بھارتی عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ گئی مودی کے اقدام نے پورے ملک میں ہلچل مچادی

datetime 29  اپریل‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی(سی پی پی) انڈیا کی مرکزی حکومت نے اس ہفتے سپریم کورٹ میں دو ججوں کی تقرری کے لیے کولیجیم کے ذریعے بھیجے گئے دو ناموں میں سے صرف ایک کی منظوری دی جبکہ دوسرا نام کولیجیم کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ وہ ا س پر نظر ثانی کرے۔حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر تقرری کے لیے جسٹس کے ایم جوزف موزوں نہیں ہیں کیوں کہ سینیارٹی میں کئی اور جج ان سے آگے ہیں۔

اور یہ کہ عدالت عظمی میں ان کی ریاست کی نمائندگی متوازن ہے۔جسٹس کے ایم جوزف کا نام کولیجیم نے ججوں کی تقرری کے لیے اپنے مسلمہ ضابطوں کے تحت ایک قابل جج کے طور پر بھیجا تھا۔ تقرری کے لیے دو ناموں کی سفارش جنوری میں بھیجی گئی تھی۔ حکومت ان سفارشات کو کے لر تین مہینے بیٹھی رہی اور جب منظوری دی تو صرف ایک ہی نام جج کی تقرری کے لیے منظور کیا۔حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ حکومت نے جسٹس کے ایم جوزف کا نام اس لیے منظور نہیں کیا کیونکہ جب وہ اترا کھنڈ کے چیف جسٹس تھے تو انھوں نے ریاست میں مودی حکومت کے ذریعے لگائے گئے صدر راج کو غیر آئینی قرار دے کر کانگریس کی حکومت کو بحال کرنے حکم دیا تھا جبکہ حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔ماہرین قانون اور سبکدوش ججوں کا خیال ہے کہ ججوں کی تقرری کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی کولیجیم کی سفارشات حتمی ہیں اور حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن کئی ججوں کے نام پر حکومت کو کچھ اعتراضات ہو سکتے ہیں اور وہ کولیجیم میں اپنے تحفظات پیش کر سکتی ہے۔ لیکن ناموں کو رد کرنا عدلیہ کی آزادی کے سلسلے میں کئی سوالات پیدا کر رہا ہے۔ کئی ماہرین قانون اور ججوں نے رائے دی ہے کہ چیف جسٹس کو اس معاملے میں سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔،ججز کی تقرری کے سوال پر حکومت اور کولیجیم میں یہ ٹکرا کافی عرصے سے چل رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 31 ججوں کی جگہیں ہیں جن میں اس وقت 24 جج ہیں۔ سات جگہیں خالی پڑی ہیں۔ اس برس کے آخر تک مزید پانچ جج سبکدوش ہو جائیں گے۔ ملک کی ہائی کورٹس میں 400 سے زیادہ ججوں کی جگہیں خالی پڑی ہیں۔ یہ صورت حال ان حالات میں ہے جب مقدمات کی سماعت اور فیصلے کی مدت طویل ہوتی جا رہی ہے۔ملک کی ذیلی عدالتوں میں کروڑوں مقدمات التوا میں پڑے ہو ئے ہیں۔

مقدمات برسوں تک چلتے رہتے ہیں۔ انصاف کا عمل عام آدمی کی رسائی سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔قانونی ماہرین کا خیال ہے ججوں کی تقرری سے لے کر عدالتوں کے طریق کار تک ہر پہلو میں اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کی عدالتوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے ۔ عدلیہ ابھی تک اپنی خود مختاری اور آزادی کا پوری طاقت اور سختی کے ساتھ دفاع کرتی آئی ہے۔عدلیہ ملک کے ان چند اداروں میں سے ایک ہے جن پر لوگوں کا اب بھی پورا اعتبار ہے۔ اس کی آزادی اور غیر جانبداری کے تحفظ کی ذمے داری صرف عدلیہ کی ہی نہیں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی بھی ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ ایک فعال اور متحرک جمہوریت کی ضامن ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



نارمل ملک


حکیم بابر میرے پرانے دوست ہیں‘ میرے ایک بزرگ…

وہ بے چاری بھوک سے مر گئی

آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج…

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی…

بخارا کا آدھا چاند

رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…