منگل‬‮ ، 19 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

افغانستان کی سرزمین سے بلوچستان سمیت پاکستان میں دہشتگردی ،پاکستان ثبوت سامنے لے آیا،حیرت انگیزانکشافات

datetime 5  دسمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کوئٹہ(این این آئی ) صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہاہے کہ افغانستان کی سرزمین بلوچستان سمیت پاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال ہوتی ہے ہمارے پاس اس بارے میں مکمل ثبوت ہے ہماری ذاتی خواہش ہے کہ جلد از جلد افغان مہاجرین اپنے ملک واپس چلے جائیں دسمبر تک مہاجرین کے قیام کی توسیع کی گئی ہے ان کی واپسی میں افغانستان کی حکومت اور وفاقی حکومت دیگر ادارے بھی ساتھ دینگے اورفیصلہ کرینگے کہ ان کو کب اپنے وطن واپس جانا چاہیے

ڈی آئی جی حامد شکیل مرحوم کے قتل کے بارے میں بھی اب یہ بات سامنے آگئی ہے کہ ان پر جو خودکش حملہ ہواتھا وہ رقم پچاس ہزار ڈالر افغانستان میں دہشتگردوں نے ادا کی تھی اور یہ کام کرایا اسکے علاوہ حال ہی میں ڈی پی او چمن پر خودکش حملہ میں ملوث دو سہولت کاروں کو بھی ہم نے گرفتار کرلیا ۔انہوں نے یہ بات منگل کے روز آئی جی آفس میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔اس موقع پر ایف سی کوئٹہ کے کمانڈنٹ برگیڈیئر تصور ستار اور ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ بھی موجودتھے ۔صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہاکہ 12سے 13ہزار افراد بغیر کاغذات کے آتے جاتے ہیں افغان حکومت اب یہ دعوہ کررہی ہے کہ وہاں حالات ٹھیک ہے لہذا انکو افغان مہاجرین جو اس وقت بلوچستان میں آباد ہے انکو واپس بلانا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ ڈی پی او قلعہ عبداللہ ساجد خان مہمند کو شہید کیا گیا اور اس میں جو لوگ سہولت کار رہے انہوں نے اپنا اعتراف جرم کرلیا ۔پریس کانفرنس کے دوران سہولت کاروں محمود خان عرف عمر عرف رضوان اور محمد سلیم عرف جنداللہ عرف حافظ صاحب عرف حمید اللہ کی ریکارڈنگ دیکھائی جس میں دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ڈی پی او قلعہ عبداللہ ساجد خان مہمند کے شہادت میں دہشتگردوں کے سہولت کار رہے ۔سہولت کار محمود خان عرف عمر عر ف رضوان نے کہاکہ میرے والد کا نام عبدالوہاب ہے اورمیری قوم اچکزئی ہے

میں حاجی حسن محلہ فیض محمد روڈ چمن کا رہائشی ہوں ۔میں نے میٹرک پاس کرنے کے بعد جان محمد روڈ کوئٹہ پر موبائل سمز بیجنے کا کام شروع کیا اور اس کے بعد شارجہ مارکیٹ لیاقت بازار کوئٹہ میں اپنی دکان بنالی لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس کاروبار کو چمن لے گیا ۔2015میں میری ملاقات رحمت اللہ عرف سیف اللہ عرف حنظلہ سے ہوئی جس نے مجھے ایک گروپ کے لوگوں سے ملوایا جوکہ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث تھے انکے ساتھ میرا معاہدہ طے ہوا کہ اغواء کی ہر کاروائی سے ملنے والی رقم میں میرا پانچواں حصہ ہوگا ۔

میں نے اپنے گروپ جس کا نام غاز ی فور س تھا کیساتھ ملکر شاہ محمد نامی شخص کو چمن سے اغواء کیا اور اسے 10دن تک کرائے کے مکان میں رکھا اس کے بعد اسے افغانستان کے صوبے پکتیکا لے گئے ۔اس کاروائی کے عوض ہم نے 27لاکھ روپے وصول کیے جس میں سے مجھے 1لاکھ روپے ملے ۔میں اور میرے ساتھیوں نے ایک شخص اسفندیار ولد ڈاکٹر اختر محمد کو چمن سے اغواء کیا اور ایک ہفتہ تک کرائے کے مکان میں رکھا اسکے بعد اس شخص کو سپین بولدک افغانستان لے گئے

اس کاروائی میں ہم نے 48لاکھ روپے تاوان وصول کیا جس میں سے مجھے چار لاکھے پچاس ہزار روپے ملے ۔میں اور میرے ساتھیوں نے ایک شخص تاج محمد ولد نیاز محمد کو بھی چمن سے اغواء کیا لیکن مزاحمت کے دوران مغوی کو گولی لگ کئی اور ہم مغوی کو خالی مکان میں چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔اس کے علاوہ میں نے اپنے ساتھیوں کیساتھ ملکر بینک اسلامی کچلاک میں 53لاکھ روپے کی ڈکیتی کی اس وارادات میں مجھے ڈیڑھ لاکھ روپے ملے اس کے بعد ہم نے الائیڈ بینک نواں کلی میں بھی 9لاکھ روپے کی ڈکیٹی کی

اور اس کاروائی میں مجھے 80ہزار روپے ملے ۔ان کاروائیوں کے بعد 2017میں میری ملاقات عبداللہ نامی شخص سے سپین بولدک افغانستان میں ہوئی جس کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے تھا ۔عبداللہ نے مجھے ڈی سی چمن اور ڈی پی او ساجد خان مہمند پر خودکش حملہ کرنے کا بتایا اسی تسلسل میں میں نے پہلے Recceکی اور پھر خودکش جیکٹ بھی عبداللہ سے وصول کی جو کہ سپین بولدک افغانستان سے لائی گئی تھی ۔Recceمکمل ہونے کے بعد عبداللہ نے حمزہ نامی خودکش حملہ آور بھی فراہم کیا

جس کو سپین بولدک افغانستان سے لایا گیا تھا خودکش بمبار کے آنے کے بعد چاردن کیلئے اسے چمن میں نیک محمد نامی شخص کے گھر ٹھہرایا گیا میں نے اس خودکش بمبار کو 10جولائی 2017کے خودکش حملہ میں استعمال کیا اس حملے میں ساجد خان مہمند صاحب (ڈی پی او قلعہ عبداللہ ) شہید ہوگئے اور 17بندے زخمی بھی ہوئے ۔اس کاروائی کے بعد عبداللہ نے مجھے ڈی سی کوئٹہ یا قلعہ عبداللہ ،پولیس ٹریننگ سینٹر ،سیکورٹی فورسز ،سینئر پولیس افسران ،میڈیا کے افراد اور تعلیمی اداروں پر حملوں کی منصوبہ بندی کیلئے کہا۔

ان کاروائیوں کیلئے مجھے عبداللہ نے ایک عدد خودکش جیکٹ بھی فراہم جو کہ دوران گرفتار ی مجھ سے قانون نافذ کرنے والے داروں نے برآمد کی ۔دوسرے سہولت کار محمد سلیم عرف جنداللہ عرف حافظ صاحب عرف حمید اللہ نے اپنے ریکارڈنگ بیان میں کہامیرانام محمد سلیم عرف جنداللہ عرف حافظ صاحب عرف حمید اللہ ہے اور میرے والد کانام عبدالرحیم ہے ۔میری قوم اچکزئی ہے اور میں سنزلہ کاریز چمن کا رہائشی ہوں ۔میں نے ابتدائی دینی تعلیم حافظ عبدالظاہر کے مدرسہ بوگرہ روڈ چمن سے حاصل کی ۔

اس کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول سنزلہ کاریز سے چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔میں نے 2016میں تحریک طالبان پاکستان میں محمود خان عرف عمر عرف رضوان کیساتھ ملکر کام شروع کیا ۔میں اور میرے ساتھیوں نے ایک شخص اسفندیار ولد ڈاکٹر اختر محمد کو چمن سے اغواء کیا اور ایک ہفتہ تک کرائے کے مکان میں رکھا اس کے بعد اس شخص کو سپین بولدک افغانستان لے گئے اس کاروائی میں ہم نے 48لاکھ روپے تاوان وصول کیا اس رقم سے مجھے ایک لاکھ تیرہ ہزار روپے ملے ۔

میں اور میرے ساتھیوں نے ایک شخص تاج محمد ولد نیاز محمد کو چمن سے اغواء کیا لیکن مزاحمت کے دوران مغوی کو گولی لگ گئی اور ہم مغوی کو خالی مکان میں چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔ان کاروائیوں کے بعد سپین بولدک افغانستان میں میری اورمحمود خان عرف عمر عرف رضوانکی ملاقات عبداللہ نامی شخص سے ہوئی جو کہ تحریک طالبان پاکستان سے منسلک ہے۔عبداللہ نے ہمیں ڈی سی چمن اور ڈی پی او ساجد خان مہمند پر خودکش حملہ کرنے کا بتایا ۔

اس تسلسل میں ہم نے پہلے Recceکی اورپھر خودکش جیکٹ بھی عبداللہ سے وصول کی جوکہ سپین بولدک سے لائی گئی ۔Recce مکمل ہونے کے بعد عبداللہ نے حمزہ نامی خودکش حملہ آور بھی فراہم کیا جس کو سپین بولدک افغانستان سے لایا گیا اور چاردن کیلئے چمن میں نیک محمد نامی شخص کے گھر ٹھہرایا گیا ۔اس خودکش بمبار کو ہم نے 10جولائی 2017ساجد خان مہمند (ڈی پی او قلعہ عبداللہ ) پر خودکش حملے میں استعمال کیا ۔اس حملے میں ساجد خان مہمند صاحب شہید ہوگئے اور 17بندے زخمی ہوئے ۔

اس کاروائی کے مجھے 7000روپے کا موبائل کارڈز کی مد میں ملے۔اس کاروائی کے بعد عبداللہ نے ہمیں ڈی سی کوئٹہ یا قلعہ عبداللہ،پولیس ٹریننگ سینٹر،سیکورٹی فورسز ،سینئر پولیس افسران،میڈیا کے افراد اور تعلیمی اداروں پر حملوں کی منصوبہ بندی کیلئے کہا۔ان کاروائیوں کیلئے عبداللہ نے ہمیں ایک عدد خودکش جیکٹ سپن بولدک افغانستان سے لاکر دی جوکہ دوران گرفتاری ہم سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے برآمد کی۔صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا

کہ تربت میں حالیہ واقعات میں جو افراد جاں بحق ہوئے ہیں اس بارے میں ایف آئی اے کا اہم رول ہے پنجاب حکومت کو ہم نے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے اور انکے ساتھ مکمل تعاون کرینگے ۔انہوں نے کہاکہ دشمن صرف پنجابی ،سندھی ،پشتون کو نہیں مار ا بلکہ پاکستانیوں کو مارے ہیں افغانستان کی سرزمین پاکستان اور بلوچستان کیخلاف استعمال ہورہی ہے اور سہولت کار بھی وہی سے دہشتگردوں کیلئے کام کررہے ہیں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ افغان مہاجرین کی موجودگی کی وجہ سے بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات ہورہے ہیں اس میں بہت دہشتگرد شامل ہے اب انکو واپس جانا چاہیے حتمی فیصلہ وفاقی حکومت مل کر افغان مہاجرین کا واپسی کے فیصلہ کرینگے ۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…