اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پیر کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی قبل از وقت عام انتخابات کرانے کے مطالبے کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس کی بجائے، کونسل کے اجلاس میں جس بات پر اتفاق کیا گیا اس پر عملدرآمد کی صورت میں ملک میں عام انتخابات قبل از وقت کرانے کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔روزنامہ جنگ کے سینئر صحافی انصار عباسی کے مطابق ذرائع
کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور پرویز خٹک سمیت تمام وزرائے اعلیٰ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عام انتخابات آئندہ سال اپنے وقت پر ہوں گے۔ عمران خان قبل از وقت الیکشن چاہتے ہیں جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں نے نہ صرف پی ٹی آئی چیئرمین کے مطالبے کو مسترد کیا ہے بلکہ یہ اصرار بھی کیا ہے کہ حکومت اپنی مدت مکمل کرے اور الیکشن آئندہ سال کے وسط میں اپنے وقت پر ہونا چاہئیں۔تاہم، یہ بات بہت ہی دلچسپ ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک، جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں قبل از وقت الیکشن کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس کے برعکس، اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ آئینی ترمیم لائی جائے گی جس کے تحت ۱) 2018ء کے عام انتخابات 2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جائیں گے، ۲) الیکشن کمیشن 2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات کیلئے انتخابی حلقہ بندیوں کا کام مکمل کرے گا۔ حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہونے میں 5؍ سے 6؍ ماہ لگیں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے معاہدے کے مطابق، 2017ء کی مردم شماری کے عبوری نتائج کا حتمی اعلان جلد کیا جائے گا تاکہ عام انتخابات 2017ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ہو سکیں۔ کونسل نے جس باتوں پر اتفاق کیا ہے
ان پر عمل کی صورت میں جلد عام انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ابتدائی طور پر پیپلز پارٹی مردم شماری پر اپنے تحفظات کی وجہ سے آئینی ترمیم کیلئے تیار نہیں تھی لیکن پیر کو وزیراعلیٰ سندھ نے مشروط انداز سے حکومت کے حلقہ بندیوں کے قانون برائے 2017ء کی حمایت کی اور مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرانے پر اتفاق کیا۔ مشترکہ مفادات کونسل نے وزیراعلیٰ سندھ کی یہ شرط قبول کر لی کہ 2017ء کی مردم شماری
کے نتائج کے حوالے سے تمام صوبوں کے ایک فیصد علاقوں کی تیسرے فریق سے تصدیق کرائی جائے گی۔ حد بندیوں کے قانون 2017ء (ڈی لمیٹیشن بل) کے تحت، اگرچہ عام نشستوں کی تعداد 272؍ ہی رکھی جائے گی لیکن صوبوں کے ایلوکیشن میں مردم شماری کے نتائج کے مطابق تبدیلی کی جائے گی۔ پنجاب کی سات عام اور دو مخصوص نشستیں کم ہوں گی، خیبرپختونخوا کی نشستوں میں پانچ کا اضافہ ہوگا جس میں چار عام اور ایک
مخصوصی نشست ہوگی، بلوچستان میں تین عام اور ایک مخصوص نشست کے ساتھ مجموعی طور پر تین سیٹوں کا اضافہ ہوگا، اسلام آباد کیلئے قومی اسمبلی کی ایک نشست بڑھ جائےگی جبکہ سندھ اور فاٹا کیلئے کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔قومی اسمبلی کی پنجاب سے نشستوں میں بھی کمی ہوگی اور یہ 148؍ سے کم ہو کر 141؍ ہوجائیں گی جبکہ خواتین کیلئے مخصوص نشستیں 35؍ سےکم ہو کر 33؍ ہوجائیں گی۔