جمعہ‬‮ ، 04 جولائی‬‮ 2025 

کیا خیالی پلاؤ پکانا صحت کے لیے مفید ہے؟

datetime 31  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(ویب ڈیسک)ایک تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ کا وہ حصہ جو ہمیں جاگتے میں خواب دکھاتا ہے، وہی حصہ بغیر سوچے سمجھے خودکار طریقے سے کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

دماغ کے چند مخصوص حصے جنھیں ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک (ڈی ایم این) کہا جاتا ہے، اس وقت فعال ہو جاتے ہیں جب ہم جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں یا حال کی بجائے ماضی یا مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے معلوم کیا کہ یہی حصہ ہمیں بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے، مثال کے طور پر کسی جانی پہچانی سڑک پر گاڑی چلانا۔توقع ہے کہ اس تحقیق سے دماغی امراض کا شکار افراد کا علاج تلاش کیا جا سکے گا۔اس سے پہلے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ ڈی ایم این آرام کی حالت میں زیادہ فعال ہوتا ہے، اور الزہائمرز، سکٹسوفرینیا، اور اے ڈی ایچ ڈی جیسی دماغی بیماریوں میں اس کے اندر خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔تاہم سائنس دانوں کو اس کی وجوہات کی ٹھیک ٹھیک پتہ نہیں چل سکا۔سائنس دانوں نے حالیہ تحقیق میں 28 رضاکاروں سے کہا کہ وہ تاش کے ایک پتے (مثال کے طور پر پان کی دُکی)

کو سکرین پر دکھائے گئے چار پتوں سے ملائیں۔اب یہ فیصلہ کرنا ان کا کام تھا کہ آیا انھیں کارڈوں کو ان کے رنگ، نمبر یا شکل کی بنیاد پر ملانا ہے۔ یہ انھیں خود تجربہ کر کے معلوم کرنا تھا۔ اس کے دوران ان کے دماغ کا سکینر کے ذریعے جائزہ لیا جاتا رہا۔جب رضاکار اس کھیل کے اصول سیکھ رہے تھے تو ان کے دماغ کا توجہ دینے والا حصہ زیادہ سرگرم تھا۔ یہ حصہ ایسی معلومات کی جانچ پڑتال کرتا ہے جو زیادہ توجہ کی متقاضی ہوتی ہیں۔جب رضاکار اصول جان گئے تو ڈی ایم این زیادہ سرگرم ہو گیا۔تحقیق کے مرکزی مصنف ڈینز واٹنسیور کہتے ہیں کہ ڈی ایم این ہمیں اس بات کا پہلے سے اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے کہ آگے کیا ہو گا، جس سے ہمیں مسلسل سوچتے رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔’یہ کسی خودکار نظام یا آٹو پائلٹ کی طرح ہے، جو اپنے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے، تاکہ ہم تیزی سے فیصلے کر سکیں۔’مثال کے طور پر جب آپ صبح کسی جانی پہچانی

سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے دفتر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ڈی ایم این فعال ہو جاتا ہے، تاکہ ہمیں ڈرائیونگ کے دوران ہر فیصلہ کرتے ہوئے بہت سا وقت اور توانائی صرف نہ کرنی پڑے۔’ڈاکٹر واٹنسیور کہتے ہیں کہ جب ہم کسی انجانے ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ ‘مینوئل’ موڈ میں آ جاتا ہے، اور خودکار نظام یعنی ڈی ایم این بند ہو جاتا ہے۔اگر دماغ لگاتار کسی چیز پر توجہ دیتا رہے تو وہ جلد ہی تھکاوٹ کا شکار ہو کر کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ جاگتے میں خواب دیکھنا یا خیالی پلاؤ پکانے سے دماغ کو کچھ دیر آرام کا موقع مل جاتا ہے تاکہ اگلی بار جب ضرورت پڑے تو دماغ فوراً حرکت میں آ سکے۔ یہ ایسے ہی ہے جب آپ کسی لمبی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں تو راستے میں چند منٹ کے لیے بیٹھ کر آرام کرنے سے توانائیاں بحال ہو جاتی ہیں۔سائنس دانوں کو توقع ہے کہ ان کی تحقیق سے ایسے دماغی امراض کا علاج کرنے میں مدد ملے گی جن میں

ذہن لگاتار سوچتا چلا جاتا ہے۔ ایسے امراض میں او سی ڈی (بار بار ایک ہی کام دہرائے چلے جانا) اور ڈپریشن شامل ہیں، جن میں مریض مسلسل ایک ہی قسم کی منفی سوچیں سوچتا رہتا ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وائے می ناٹ


میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…