اس نے اپنی مٹھی میں بند ایک تہہ شدہ کاغذ میرے سامنے کیا۔ میں نے اسے کھولا۔ وہ ایک لمبی لسٹ تھی۔ نمبر وار تیس چیزیں درج تھیں اس میں۔ جیسے:- بھائی کو سکول یونیفارم مل جائے- ابو کی صحت عید سے پہلے بھی ٹھیک رہے – امی کو کپڑے سلائی کرنے پر کوئی نہ ڈانٹے – گڑیا بیمار نہ ہو اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی تیس باتیں لکھی تھیں۔ اور ہر ایک کے سامنے درست کا نشان لگا ہوا تھا۔ جیسے ٹارگٹ مکمل کرنے پر “ٹِک مارک” کر لیا جاتا ہے۔
سوائے آخری بات کے۔ میں نے کہا “آخری بات کے آگے ٹِک کیوں نہیں لگایا؟” “کیونکہ ابھی تیسواں روزہ نہیں آیا۔” اس نے بے چینی سے منتظر ہو کر کہا۔ “اگر کل بھی روزہ ہوا تو آپ اس کے آگے ٹک لگا لو گی؟” “جی” وہ بہت زیادہ خوش ہو کر بولی۔ “کیوں؟” “کیونکہ میں کل اللہ سے اس چیز کو مانگوں گی۔ اور اللہ نے کہا ہے کہ رمضان کے ہر شب و روز میں مسلمان کی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ کل یہ دعا بھی پوری ہوجائے گی۔” وہ آنکھیں میچ کر پر امید لہجے میں بولی۔ مجھے اس ننھی معصوم بچی کی امید اور یقین پر رشک آیا۔ اپنا دامن خالی لگا۔ میں نے اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے اس سے پوچھا: “آپ کے بھائی کو یونیفارم مل گیا تھا؟” “لو بھلا کیوں نہ ملتا، جب میں نے دعا کی اگلے دن ہی راشدہ آنٹی اپنے بیٹے کا پرانا یونیفارم ہمیں دے گئیں، اور ابو پورا مہینہ ڈبل دیہاڑی کر کے بھی صحت مند رہے اور کل منزہ بی بی اپنے سلے ہوئے کپڑے لینے آئی تھیں، وہ ہمیشہ امی کی سلائی میں نقص نکالتی ہیں اور دوبارہ سینے کا کہتی ہیں لیکن کل انھوں نے پیسے بھی زیادہ دیے اور امی کو کچھ نہیں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ اپنی روانی میں بولتی جارہی تھی اسے اپنی دعاؤں کی قبولیت کا یقین تھا۔ میں اس قابل نہیں تھا کہ اس نونہال کے ایمان کا مقابلہ کرسکتا اپنی کسی دلیل سے۔ میری نظریں آخری دعا پر ٹھہر گئیں تھیں۔ تیسویں نمبر پر درج تھا:
“اگلا رمضان بھی تیس دن کا ہو۔”