البرٹ سپیئر کا شمار ہٹلر کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا‘ وہ بنیادی طور پر آرکیٹیکٹ تھا‘ ہٹلر بھی فن تعمیر میں گہری دلچسپی رکھتا تھا لہٰذا دونوں میں اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں ‘ہٹلر ان ملاقاتوں کے دوران البرٹ سپیئر کے ٹیلنٹ سے متاثر ہو گیا اور جب وہ جرمنی کا سربراہ تھا تو اس نے ہتھیار سازی کی وزارت سپیئر کے حوالے کر دی‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد سپیئر سیاست سے تائب ہو گیا اور اس نے تصنیف و تالیف کا کام شروع کردیا‘
ساٹھ کی دہائی میں اس نے ہٹلر کی زندگی‘ اس کے سٹائل اور اس کی فلاسفی پر ایک ایسی کتاب لکھی جس کی گونج آج تک تاریخ اور ادب کی وادی میں سنائی دیتی ہے‘ البرٹ سپیئر نے اپنی کتاب میں ہٹلر کی زندگی کے بے شمار واقعات لکھے لیکن ان واقعات میں سے ایک واقعہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا‘ سپیئر نے لکھا تھا ‘ وہ ایک دن ہٹلر کے دفتر میں داخل ہوا تو اس نے ہٹلر کو خلاف معمول ہشاش بشاش پایا‘ وہ نصف گھنٹے تک اس کے ساتھ گپ لڑاتا رہا‘ جب وہ واپسی کیلئے اٹھا تو ہٹلر نے اس سے پوچھا ’’ تم نے میرے دفتر میں کوئی نئی چیز دیکھی؟‘‘ سپیئر نے غور سے کمرے کا جائزہ لیا تو اسے وہاں کوئی غیر معمولی تبدیلی دکھائی نہ دی‘ ہٹلر نے سپیئر کو یوں پریشان دیکھا تو وہ ریوالونگ چیئر پر جھول کر بولا ’’ تم دیکھو ‘ آج میرے کمرے میں فائل نام کی کوئی چیز نہیں ‘‘سپیئر نے دیکھا واقعی ہٹلر کی میز بالکل صاف تھی‘ ہٹلر نے صاف شفاف ٹیبل پر ہاتھ پھیر کر انکشاف کیا ’’ میں کام چور‘ حیلہ ساز اور مکار بیورو کریسی کو مات دے چکا ہوں‘ اب جرمنی میں کوئی سرکاری افسر‘ ہیرا پھیری کرے گا اور نہ ہی کسی سائل کو کسی دفتر سے کوئی شکایت ہوگی‘‘ البرٹ سپیئر کیلئے یہ انکشاف حیران کن تھا لہٰذا اس نے اس کی تفصیل جاننے کی خواہش کی‘ ہٹلر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’ جب میں نے عنان اقتدار سنبھالی تو ساری وزارتوں نے میرے آفس میں فائلوں کی بھرمار کر دی‘
میں صبح اٹھ کر فائلیں پڑھنا شروع کرتا تھا تو رات گئے تک بمشکل ایک چوتھائی کام مکمل ہوتا تھا‘ اگلے روز میرا سٹاف آتا تو وہ جتنی فائلیں سمیٹتا اس سے دوگنی میز پر رکھ دیتا تھا‘ ایک روز جب میں دستخط کر کر کے تھک گیا تو میں نے سوچا یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے تب مجھے محسوس ہوا یہ میرے خلاف بیورو کریسی کی سازش ہے ‘ یہ لوگ مجھے دستخطوں اور فائلوں میں الجھا کر میرے اصل مقصد سے ہٹانا چاہتے ہیں‘ بس یہ خیال آنا تھا ‘ میں نے ساری فائلیں فرش پر پھینکیں اور حکم جاری کیا آئندہ کوئی فائل مجھ تک نہیں پہنچنی چاہیے‘
تمام متعلقہ حکام ان پر خود ہی فیصلے صادر کریں لیکن یہ واضح رہے جس نے حکم جاری کرتے ہوئے کسی قسم کی بدنیتی کا مظاہرہ کیا میں اسے گولی سے اڑا دوں گا‘ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کوئی فائل میرے دفتر آئی اور نہ ہی کہیں سے بدنظمی اور تاخیر کی کوئی شکایت موصول ہوئی‘‘۔ ہم جدید دور کے آزاد لوگ ہٹلر کو لاکھ برا سمجھیں‘ اسے فاشسٹ ‘ آمر‘ ظالم اور ننگ انسانیت قرار دیں لیکن یہ طے شدہ حقیقت ہے جو سچائی ہٹلر نے ساٹھ‘ ستر برس پہلے بھانپ لی تھی اس تک ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر پرویز مشرف اور میاں نواز شریف سے یوسف رضا گیلانی تک پاکستان کا کوئی حکمران نہیں پہنچ سکا‘
ہمارے ملک کے سیاسی افق پر بڑے بڑے ذہین لوگ ابھرے‘ بڑے بڑے انقلابی ایجنڈے لے کر آئے اور بڑے بڑے منصوبوں کی بڑی بڑی گٹھڑیاں سروں پر لاد کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئے لیکن انہیں‘ ان کے انقلابی ایجنڈوں اور ان کے منصوبوں کو فائلوں کے قبرستان میں دفن ہوتے دیر نہ لگی‘ ذوالفقار علی بھٹو ہو یا جنرل ضیاء الحق‘ جونیجو ہو یا بے نظیر‘ نواز شریف ہو یا پرویز مشرف ‘میر ظفر اللہ جمالی ہوں یا شوکت عزیز یہ لوگ بیورو کریسی کے سوئمنگ پول میں اترے تو پھرانہیں سطح آب پر ابھرنا نصیب نہ ہوا اور وہ میٹنگ‘ کمیشن‘ بریفنگ‘ رول‘ رپورٹ کمنٹس اور فائل کے غوطے کھا کھا کر ہی فنا ہوگئے‘
میں نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے فائلوں سے بھرے چھ ‘چھ صندوق وزیراعظموں کے ساتھ لاہور اور کراچی جاتے پھر وہاں سے بے نیل و مرام واپس آتے دیکھے‘ میں نے بے نظیر کو رات رات بھر فائلوں سے آنکھیں پھوڑتے اور سیکشن افسروں کے اف اینڈ بٹ ٹھیک کرتے دیکھا‘ میں نے اپنے ان گنہگار کانوں سے سینئر بیورو کریٹس کو کہتے سنا‘ دستخط کر کر کے محمد خان جونیجو کی کلائی میں موچ آ جاتی تھی‘ کمشنوں کی رپورٹیں پڑھتے پڑھتے جنرل ضیاء الحق کے کندھے جھک گئے تھے اور مسلسل کرسی اور میز پر بیٹھے رہنے کے باعث بھٹو صاحب کے مہروں میں درد شروع ہوگیا تھا لیکن اس نظام کی دیوار وہیں کھڑی رہی اور سسٹم کا بیل اسی طرح ایک ہی دائرے میں گھومتا رہا‘
سفر بہت کیا‘ پاؤں میں چھالے پڑ گئے‘ ہم سفر ایک ایک کر کے ہمت ہار گئے لیکن منزل اتنی ہی دور رہی جتنی آغاز سفر کے وقت تھی۔ میرا دعویٰ ہے اگر کبھی کسی نے پاکستانی نظام پر تحقیق کی‘ اگر کوئی بیورو کریسی کے اس جوہڑ میں اتر ا تو اسے اس میں جا بجا ہیوی مینڈیٹ کی ہڈیاں‘ نیم پختہ انقلابوں کے ڈھانچے ‘ ترقی‘ خوشحالی اور عزت نفس کے کفن اور روٹی کپڑے اور مکان کی کرچیاں ملیں گی‘ یہ ساری کرچیاں‘ یہ سارے کفن‘ یہ سارے ڈھانچے اور یہ ساری ہڈیاں ان لوگوں ‘ ان پارٹیوں اور ان لیڈروں کی ہیں جو پوری طاقت کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے لیکن بعد ازاں انہوں نے بیورو کریٹس کواپنا پیغمبر اور فائلوں کو اپنا خدا مان لیا لہٰذا ان کی داستان بھی داستانوں کی راکھ میں مل کر بے نشان ہوگئی‘
لوگ مر گئے اور قبریں پیچھے رہ گئیں‘ہمارے نئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو ان کے پیش رو دہراتے رہے تھے۔ ہمارے وزیراعظم بھی اعلانات پر اعلانات کئے جا رہے ہیں ‘ کبھی وہ فرماتے ہیں قوم کو ججز کی بحالی کی بہت جلد خوشخبری دیں گے‘ مہنگائی پر قابو پائیں گے‘ غریبوں کو امداد دی جائے گی‘ ذخیرہ اندوزی ختم کی جائے گی‘سرمایہ کاروں کو تحفظ دیا جائے گا‘ لوڈ شیڈنگ پر جلد قابو پا لیا جائے گا‘ کبھی اعلان کرتے ہیں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے گا‘
صحت اور روزگار کے یکساں مواقع دیں گے لیکن سوال یہ ہے آخر کب دیں گے؟ اگر حکومت کی پچھلے تین ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یوں محسوس ہوگا حکومت نے سوائے اعلانات کے کچھ نہیں کیا‘ حکومت نے 100 دن کے ایجنڈے کا اعلان کیا تھا اور یہ ایجنڈا بھی فائلوں ‘ رپورٹوں‘ کمیشن‘ کمنٹس‘ میٹنگز‘ بریفنگز اور کانفرنسز تک محدود رہا۔‘یقین کیجئے جس نظام میں اعلانات اور وعدے روز مرہ کا وتیرہ بن جائیں‘ جس نظام میں کاغذ کا ایک ٹکڑا پانچویں گریڈ کے کلرک کی میز سے چل کر انتہائی گریڈ کے چیف ایگزیکٹو کے دفتر پہنچ کر بھی ادھورا رہے اور جو کاغذ سے فائل بن کر بھی نامکمل ہو وہ سسٹم نہیں پھندہ ہے‘
وہ نظام نہیں دھوکہ ہے‘ وہ حقیقت نہیں فریب ہے اور فریب کی اس انڈسٹری‘ دھوکے کے ان تاجروں اور پھندوں کے ان صنعتکاروں کا ایک ہی علاج ہے ‘ ہٹلر کا علاج‘ اگر حکومت نے یہ علاج نہ کیا تو دستخط کرتے کرتے وزیراعظم کی کلائی میں بھی موچ آ جائے گی‘ ان کے کندھے جھک جائیں گے اوران کے مہروں میں درد ہونے لگے گا لیکن حالات کی دیوار آنے والے کل بھی اسی جگہ کھڑی رہے گی جس جگہ وہ گزرے کل کھڑی تھی۔