رسول کریمﷺ کا مرض بڑھ گیا یہاں تک کہ آپﷺ اٹھنے بیٹھنے سے معذور ہو گئے، اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضورﷺ کو نماز کی اطلاع دینے حاضر ہوئے، آنحضرتﷺ نے اپنے کندھے سے کپڑا ہٹایا اور کمزور آواز میں فرمایا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ!
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رقیق القلب آدمی ہیں، جب نماز کیلئے کھڑے ہوں گے تو ان پر آہ و بکا کا غلبہ ہو جائے گا اور رونے کی وجہ سے ان کی قرأت بھی سنائی نہیں دے گی اس لئے اگر آپﷺ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دے دیں تو بہتر ہو گا۔ حضورﷺ نے دوبارہ اصرار کرتے ہوئے فرمایا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ حضورﷺ سے کہو کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے نرم دل انسان ہیں جب وہ نماز پڑھائیں گے تو ان کے زیادہ رونے کی وجہ سے لوگ ان کی آواز کو نہ سن پائیں گے اس لئے اگر آپﷺ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے لئے فرما دیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر حضور اکرمﷺ نے فرمایا تم یوسف علیہ السلام کے ساتھ والیاں ہو، جاؤ! ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کیلئے کھڑے ہو گئے تو رسول اللہﷺ کو اپنی طعبیعت میں کچھ خفت محسوس ہوئی تو آپؐ اٹھے اور دو آدمیوں کا سہارا لئے زمین پر نشان ڈالتے ہوئے مسجد میں تشریف لے آئے، جب ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضورﷺ کے آنے کا احساس ہوا تو اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے لگے تو حضورﷺ نے ان کو حکم دیا کہ اپنی جگہ پر رہو لیکن صدیق اکبرؓ پیچھے ہٹ گئے اور حضورﷺ صف میں کھڑے ہو گئے۔
جب نماز ختم ہو گئی تو حضور اقدسﷺ نے پوچھا اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ اپنی جگہ پر قائم رہو تو تم کیوں نہیں قائم رہے؟ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عاجزانہ انداز میں سر جھکاے ہوئے کہا ابوقحافہ کے بیٹے کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔