غزوۃ العشیرۃ کے موقع پر حضرت علیؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ دونوں دوست تھے، جب نبی اکرمؐ نے یہاں قیام کیا تو بنو مدلج کے کچھ لوگ نظر آئے جو اپنے چشمہ پر کوئی کام کررہے تھے، حضرت علیؓ نی حضرت عمارؓ سے کہا: اے ابوالیقطان! کیا خیال ہے ان لوگوں کے پاس چل کر دیکھیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں؟
عمار بن یاسرؓ نے کہا کہ اگر تم چاہو تو چلو! چنانچہ دونوں گئے اور ان کے کام کو کچھ دیر تک دیکھتے رہے، پھر نیند کا غلبہ ہوا تو وہاں سے اٹھے اور ایسی جگہ پر جا کر لیٹ گئے جہاں بہت زیادہ ریت تھی۔ ایسے سوئے کہ پھر رسول کریمؐ نے ہی ان کو اپنے پاؤں کے ذریعہ اٹھایا، دونوں ریت سے بھر چکے تھے۔ پھر آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’کیا میں تم کو سابقہ لوگوں میں سب سے بڑے بدبخت آدمی کی خبر نہ دوں؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہؐ! کیوں نہیں! آپؐ نے فرمایا کہ قوم ثمود کا ’’احمیر‘‘ جس نے صالحؑ کی اونٹنی کو مار ڈالا تھا۔ حضورؐ نے پھر فرمایا: ’’کیا میں تم کو بعد میں آنے والے لوگوں میں سب سے بدبخت آدمی کی خبر نہ دوں؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہؐ کیوں نہیں، آپؐ نے فرمایا کہ اے علیؓ! جو تجھے اس جگہ مارے گا، آپؐ نے اپنا ہاتھ ان کے سر پر رکھا، حتیٰ کہ اس سے یہ بھر جائے گی، آپؐ نے ان کی داڑھی پکڑ کر اشارہ فرمایا۔