قریش کے چند آدمی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے محمدؐ! ہم آپؐ کے پڑوسی اور حلیف ہیں، ہمارے کچھ غلام آپؐ کے پاس آئے ہیں جن کو نہ دین کی کوئی رغبت ہے اور نہ اس کی فقہ کا کوئی اشتیاق ہے، ہماری زمینوں اور اموال کو چھوڑ کر بھاگ آئے ہیں،
آپؐ انہیں ہمارے حوالہ کریں۔ حضورِ اکرمؐ نے ابوبکر صدیقؓ سے پوچھا: تم کیا کہتے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہاکہ یہ لوگ سچ کہتے ہیں کہ وہ آپؐ کے پڑوسی ہیں۔ آنحضرتؐ کا روئے مبارک متغیر ہو گیا، پھر حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم کیا کہتے ہو؟ حضرت علیؓ نے بھی یہی کہا کہ یہ لوگ سچ کہتے ہیں کہ وہ آپؐ کے پڑوسی ہیں۔ اس پر آپؐ کا چہرۂ انور متغیر ہو گیا۔ پھر ارشاد فرمایا: ’’اے قریشی کی جماعت! خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ تم میں سے ایک آدمی کو بھیجے گا جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے جانچ لیا ہے، وہ دین پر تم کو ضرور مارے گا یا (فرمایا کہ) تم میں سے بعض کو مارے گا۔ ابوبکرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! کیا وہ شخص میں ہوں؟ حضورؐ نے فرمایا کہ نہیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ کیا وہ شخص میں ہوں؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں۔ بلکہ ایسا آدمی وہ ہے جو جوتے سیتا ہے۔ آنحضرتؐ نے اپنے نعلین مبارک، حضرت علیؓ کو سینے کے لیے دیے تھے۔