حضرت علیؓ بھوک کی کی حالت میں گھر سے نکلے، اعضاء سردی کی شدت سے تھرتھر کانپ رہے تھے، آپؓ نے چمڑے کا ایک ٹکڑالیا، اس کو کاٹ کر اپنے کپڑوں کے نیچے سینہ سے لگالیا تاکہ کچھ گرمی حاصل ہو۔ پھر فرمانے لگے: خدا گواہ ہے میرے گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے، اگر بیت رسولؐ میں کچھ ہوتا تو میرے پاس ضرور پہنچ جاتا۔ پھر آپؓ مدینہ منورہ کے گرد و نواح میں نکلے،
بھوک اورسردی کی شدت سے کانپ رہے تھے کہ ایک یہودی کی آپؓ پر نظر پڑی جو اپنے باغ کی دیوار کے سوراخ سے دیکھ رہا تھا، اس نے کہا: اے دیہاتی! تجھے کیا ہوا؟ حضرت علیؓ نے جواب دیاکہ مجھے سردی اور بھوک کی شکایت ہے۔ یہودی نے کہا: کیا تم میرے لیے پانی بھرو گے، ہر ڈول کے عوض کھجوریں لے لینا؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ہاں، ٹھیک ہے۔ یہودی نے باغ کادروازہ کھولااور حضرت علیؓ اندر داخل ہو گئے، حضرت علیؓ (کام کرتے ہوئے) جب بھی پانی کا ایک ڈول بھر دیتے وہ یہودی آپؓ کو ایک کھجور عوض میں دے دیتا، یہاں تک کہ حضرت علیؓ کی ہتھیلی کھجوروں سے بھر گئی، پھر فرمایا کہ بس مجھے یہی کافی ہیں۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے وہ کھجوریں کھائیں اور اس پر تھوڑا سا پانی پیا۔ پھر جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں پیوند زدہ چادر اوڑھے ہوئے پہنچے، جب رسول اللہؐ نے ان کی حالت دیکھی تو آپؐ کو وہ نعمتیں یاد آ گئیں جو حضرت علیؓ کوکل کو حاصل تھیں اور آج ان کی حالت دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرآئے اور رونے لگے پھر فرمایا: اس دور میں تمہارا حال کیا ہوگا جب تم ایک جوڑا صبح پہنو گے اور ایک جوڑا شام کو پہنو گے اور تمہارے گھر یوں ڈھانکے جائیں گے جیسے خانۂ کعبہ کو ڈھانگا جاتا ہے‘‘؟ لوگوں نے کہا کہ ہم اس دور میں خوش حال ہوں گے، ذمہ داریوں میں باکفایت اور عبادت کے لیے بافراغت ہوں گے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم اس دورکے مقابلہ میں آج زیادہ بہتر ہو۔‘‘