قریش مکہ نے رسول اللہؐ کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس کو انہوں نے توڑ دیا، چنانچہ رسول کریمؐ نے مکہ جانے کی تیاری شروع کردی، اس تیاری کی خبر قریش کو آگ کی طرح پہنچی، چنانچہ انہوں نے رسول اللہؐ سے معذرت طلبی کے لیے ابو سفیان کو بھیجا کہ آنحضورؐ سے جدید معاہدہ کا مطالبہ کریں۔ جب ابو سفیان اپنے مقصد کے لیے مدینہ پہنچا تو بااثر مسلمانوں سے ملاقات کی اور اپنے عذر اور تجدید معاہدہ کی پیش کش کی تو سب نے اس کی پیش کش ٹھکرادی۔
ابو سفیان خالی ہاتھ اور نامراد ہو کر واپس لوٹا اور قریش مکہ سے باتیں کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’میں ابوبکرؓ کے پاس گیا تو مجھے ان سے کوئی تعاون حاصل نہ ہوا۔ پھر میں ابن خطابؓ کے پاس گیا تو میں نے ان کو سب سے زیادہ دشمن پایا، انہوں نے مجھے کہا کہ کیا رسول اللہؐ کے سامنے تمہاری سفارش کروں؟ خدا کی قسم! اگر مجھے تنکا بھی ملے تو میں اس کے ساتھ تم سے لڑوں گا۔ پھر میں علیؓ کے پاس گیا تو میں نے ان کو لوگوں میں سب سے زیادہ نرم پایا۔‘‘