جب جنگ جمل اپنے اختتام کو پہنچی اور آتش حرب بجھ گئی تو امیر المومنین حضرت علیؓ نے ام المومنین حضرت عائشہؓ کے لیے سواری، زادِ راہ اور دیگر سامان تیارکیااور حضرت عائشہؓ کے ساتھ ان لوگوں کو بھی واپس روانہ کیا جو ان کے ساتھ آئے تھے اور بچ گئے تھے۔
مگر جس نے وہیں ٹھہرنا پسند کیا وہ وہیں رہا۔ نیز حضرت علیؓ نے حضرت عائشہؓ کے ہمراہ بصرہ کی حسب و نسب میں معروف چالیس عورتیں بھی چنیں۔ جب روانگی کا دن آیا تو حضرت علیؓ، حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپؓ کے اردگرد ہر طرح کے مسلمان موجود تھے۔ حضرت عائشہؓ باہر آئیں اور ان لوگوں کو رخصت کرنے لگیں۔ غم اور افسوس کے لہجہ میں فرمانے لگیں: اے میرے بچو! ہم میں سے بعضوں نے بعضوں پر غفلت اور کوتاہی سے عتاب کیا۔ پس اب تم میں سے کوئی بھی کسی پر زیادہ نہ کرے خواہ کوئی بات اس تک پہنچے۔ خدا گواہ ہے میرے اور علیؓ کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں تھا، مگر ایک ساس اور داماد کے درمیان جو بات ہوتی ہے وہ تھی۔ اگرچہ میں نے ان پر عتاب کیاہے مگر یہ (حضرت علیؓ) میری نظر میں نیک لوگوں میں سے ہیں۔‘‘ پھر حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’لوگو! انہوں نے سچ کہا ہے اور انہوں نے نیکی کی ہے۔ واقعی میرے اور ان کے درمیان اس کے سوا اور کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ اوریہ (حضرت عائشہؓ) دنیاو آخرت میں تمہارے نبیؐ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔‘‘