ایک دن ابومطر نامی شخص نماز کے بعد مسجد سے نکلا تو اس نے پیچھے سے آواز سنی، کوئی کہہ رہا ہے کہ اپنا تہبند اونچا رکھو، کیونکہ یہ چیز تیرے رب سے زیادہ ڈرنے والی اور تیرے کپڑوں کو زیادہ صاف رکھنے والی ہے اور اگر تم مسلمان ہو تو سر کے بال بھی تراشو۔‘‘
جب اس آدمی نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علیؓ تھے جن کے ہاتھ میں درہ بھی تھا۔ پھر حضرت علیؓ چلتے ہئے اونٹوں کے بازار میں داخل ہوئے اور (وہاں کے تاجروں سے مخاطب ہو کر) فرمایا: ’’معاملہ کرو مگر قسمیں نہ کھاؤ، کیونکہ قسمیں کھانے سے سامانِ تجارت تو بک جائے گا لیکن برکت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ پھر آپؓ ایک بائع کے پاس آئے جو کھجوریں بیچ رہا تھا، وہاں دیکھا کہ ایک باندی رو رہی ہے۔ آپؓ نے پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ باندی نے روتے ہوئے کہا کہ میں نے اس آدمی سے ایک درہم کی کھجوریں خرید کی تھیں، میرے مالک نے ان کھجوروں کو لینے سے انکار کر دیا اور مجھے کہا کہ بائع کو واپس کرکے اس سے درہم واپس لے لو، اب یہ بائع مجھے درہم نہیں دے رہا ہے۔ حضرت علیؓ نے کھجوروں کے بیچنے والے شخص سے فرمایا: اپنی کھجوریں لے لو اور اس کو درہم واپس دے دو۔ یہ بیچاری اپنے معاملہ میں مجبور ہے۔ بائع نے انکار اور تکبر کیا اور زور زور سے بولنے لگا۔ ابومطر نے بائع سے کہا کہ جانتے بھی ہو کہ تمہارے ساتھ گفتگو کرنے والا شخص کون ہے؟ بائع نے تیز لہجہ میں کہا کہ نہیں۔ کون ہیں یہ؟ ابو مطر نے کہا کہ یہ امیرالمومنین علیؓ ہیں۔ بائع (یہ سن کر) خوف سے تھرتھر کانپنے لگا اور اسی وقت باندی سے کھجوریں لیں اور اس کو درہم واپس دے دیا۔ پھر کہنے لگا: یا امیر المومنین! میں چاہتا ہوں کہ آپؓ مجھ سے راضی ہو جائیں! حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جب تو نے حق دار کو پورا پورا حق دے دیا تو میں تجھ سے راضی ہوں۔‘‘