جب حضرت ابوبکر صدیقؓ جہاد کے ارادہ سے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر نکلے تو حضرت علیؓ نے اونٹ کی لگام پکڑ لی اور کہا کہ اے خلیفۂ رسولؐ! کہاں کا ارادہ ہے؟ میں آپؐ سے بھی وہی بات کہتا ہوں جو ہم نے احد کے دن رسول اللہؐ سے عرض کی تھی کہ اپنی تلوار نیام میں ڈال لو، اپنی ذات سے ہمیں دکھ نہ دو اور مدینہ واپس لوٹ آؤ۔ خدا کی قسم! اگر ہمیں آپ کی وجہ سے تکلیف پہنچی تو پھر
کبھی اسلام کا نظام قائم نہ ہو سکے گا۔ صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ نہیں، خدا کی قسم! میں ایسا نہیں کروں گا اور میں اپنی ذات کے ساتھ تمہاری غمخواری نہ کروں گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ذوالحستہ اور ذوالقصۃ (مقام) کی طرف روانہ ہو گئے اور غلبہ پانے تک منافقین سے قتال کیا، پھر حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے مشورہ کی وجہ سے مدینہ منورہ میں ہی سکونت پذیر ہو گئے۔