ایک آدمی یمن سے حاضر خدمت ہوا اور بارگاہِ فاروقی میں عرض گزار ہوا کہ اے امیر المومنین! آپؓ تاریخ کیوں نہیں ڈالتے کہ یہ واقعہ فلاں مہینہ اور فلاں سال ہوا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں پھر وہ آدمی چلاگیا، حضرت عمرؓ خلوت گزین ہوئے تو دل و دماغ میں یہی خیالات بار بار آنے لگے اور گہری سوچ میں مستغرق ہوگئے، یہاں تک کہ جب آپؓ کا دل مطمئن ہو گیا تو مہاجرین وانصار کو ایک جگہ پر جمع کیااوراس یمنی آدمی کی بات ان کے سامنے پیش کی اور اس سوچ کی خوب توضیح فرمائی، پھر ان سے ایک سوال کیا کہ تاریخ کا آغاز کہاں سے
ہونا چاہیے؟ ایک طویل خاموشی چھا گئی، کہیں سے ہلکی سی آواز آئی کہ رسول اللہؐ کی وفات سے آغاز ہونا چاہیے، کسی نے کہا کہ نہیں، بلکہ بعثت نبویؐ سے تاریخ لکھنے کا آغاز ہونا چاہیے۔ اتنے میں علی بن ابی طالبؓ کی آواز بلند ہوئی کہ یا امیر المومنین! ہمیں تاریخ لکھنے کا آغاز اس وقت سے کرنا چاہیے جس وقت رسول کریمؐ شرک کی سرزمین سے نکلے تھے (اور مدینہ منورہ پہنچے تھے)۔ یعنی جس دن نبی کریمؐ نے ہجرت فرمائی تھی۔ حضرت علیؓ کا یہ فرمانا تھا کہ ہر طرف آوازیں آنے لگیں کہ ہمیں یہ بات قبول ہے اور ہم اس پر راضی ہیں۔