نبی کریمؐ تین سال تک لوگوں کو پوشیدہ طورپر اللہ کی طرف دعوت دیتے رہے، لیکن جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:’’وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَ تَک اَلاقَرَبْینَ‘‘ (الشعراء:213)’’اپنے قریبی اعزہ کو خدا کے عذاب سے ڈرائیے۔‘‘تو نبی مکرمؐ نے بنو عبدالمطلب کو جمع کیا اور ان کے لیے کھانے پینے کا انتظام کیا،
سب نے خوب سیر ہو کر کھایا مگر کھانا جوں کا توں باقی تھا جیسے کسی نے چھوا تک نہ ہو اور خوب سیر ہو کر پیا مگر مشروب جوں کا توں (بطور معجزہ کے) باقی تھا جیسے کسی نے مَس بھی نہ کیا ہو۔ اس کے بعد حضورِ اقدسؐ نے فرمایا: اے بنو عبدالمطلب! میں تمہاری طرف بطورِ خاص اور تمام لوگوں کی طرف بالعموم مبعوث ہوا ہوں۔ پھر متذکرہ آیت تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: تم میں سے کون اس بات پر بیعت (عہد) کرتا ہے کہ وہ میرا بھائی اور دوست بنے گا؟ ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا، سب پر خاموشی چھائی تھی، جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ لیکن اس خاموشی کو ایک بچہ نے یہ کہہ کر توڑ دیا میں بنوں گا۔۔۔ وہ علیؓ تھے، جو نبی کریمؐ کے برابر کھڑے تھے۔ انہوں نے دوبارہ دہراتے ہوئے کہا کہ میں آپؐ کا بھائی اور دوست بنوں گا۔ آنحضرتؐ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ حضرت علیؓ بیٹھ گئے۔ حضور اکرمؐ نے اپنی بات دوبارہ دہرائی تو اس وقت بھی حضرت علیؓ کے سوا اور کوئی نہیں اٹھا، حضرت علیؓ جو آنحضرتؐ کے پاس کھڑے تھے، فرمانے لگے کہ میں آپؐ کا بھائی اور دوست بنوں گا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ۔ پھرحضورِ اقدسؐ نے تیسری بار اپنی بات دہرائی تو اس بار بھی علی بن ابی طالبؓ کے سوا اور کوئی نہیں اٹھا۔ حضرت علیؓ ہی فرماتے رہے: میں۔۔۔میں آپؐ کا بھائی اور دوست بنوں گا۔ نبی کریمؐ نے تبسم فرمایا، پھر علیؓ کے سینہ پر اپنا دست مبارک مارا جو کہ ان کے عمل پر خوشی کا اظہار تھا۔