دو شخص تھے، ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں، دونوں کھانا کھانے کے لیے ایک جگہ بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک تیسرا آدمی بھی آ گیا، اس نے سلام کیا، انہوں نے اس کو بھی بیٹھنے کا کہا، چنانچہ وہ بھی کھانے میں شریک ہوا، جب آٹھ روٹیاں کھا کر سب فارغ ہوگئے تو اس آدمی نے آٹھ درہم اپنے حصے کی روٹیوں کی قیمت دے دی اور آگے بڑھ گیا۔
جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں اس نے سیدھا حساب یہ کیا کہ اپنی پانچ روٹیوں کی قیمت پانچ درہم لی اور دوسرے کو ان کی تین روٹیوں کی قیمت تین درہم دینے چاہے مگر وہ اس پر راضی نہ ہوا اور نصف کا مطالبہ کیا۔ یہ معاملہ عدالت مرتضوی میں پیش ہوا، دونوں نے اپنا قضیہ پیش کیا، حضرت علیؓ نے دوسرے کو نصیحت فرمائی کہ تمہارا رفیق جو فیصلہ کر رہاہے اس کو قبول کر لو اس میں زیادہ تمہارا نفع ہے لیکن اس نے کہا کہ حق کے ساتھ جو فیصلہ ہو مجھے منظور ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا حق تو یہ ہے کہ تم کو صرف ایک درہم اور تمہارے رفیق کو سات درہم ملنے چاہئیں۔ اس عجیب فیصلہ سے وہ متحیر ہو گیا، کہنے لگا کہ مجھے ذرا وضاحت سے سمجھائیے تاکہ میں اس فیصلہ کو قبول کروں! حضرت علیؓ نے فرمایا کہ تم تین آدمی تھے، تمہاری تین روٹیاں تھیں اور تمہارے رفیق کی پانچ، تم دونوں نے برابر کائیں اور ایک تیسرے کو بھی برابر حصہ دیا۔ تمہاری تین روٹیوں کے حصے تین جگہ کیے تو ٹکڑے ہوئے، تم اپنے نو ٹکڑوں اور اس کے پندرہ ٹکڑوں کو جمع کرو تو 24 ٹکڑے ہوتے ہیں، تینوں میں سے ہر ایک نے برابر ٹکڑے کھائے تو فی کس آٹھ ٹکڑے ہوتے ہیں، تم نے اپنے نو میں سے آٹھ خود کھائے اور ایک تیسرے مسافر کو دیے، اس لیے آٹھ درہم میں سے ایک درہم کے تم مستحق ہو اور سات کا تمہارا رفیق مستحق ہے۔ (یہ تفصیل سن کر) وہ آدمی مسکرایا اور کہنے لگا: اب میں سمجھ گیا، خوش ہوگیا۔