جب حاتم طائی کی بیٹی قید ہو کر مدینہ پہنچی تو اس کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس کی بیٹی آپﷺ سے مخاطب ہو کر بولی کہ میرا باپ اس دنیا سے جا چکا ہے، اور میرا بھائی کہیں چھپ گیا ہے، اگر آپ مجھے آزاد کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہوگی کیونکہ میرے والد پسندیدہ اخلاق رکھنے والے تھے، بھوکوں کا پیٹ بھرتے تھے، ننگوں کو پوشاک پہناتے تھے، اور وہ اپنی ہر آرزو تک پہنچے۔
آپﷺ نے فرمایا: اے خاتون! یہ صفات جو آپ نے گنوائے ہیں مومنین کے صفات میں سے ہیں۔ اگر آپ کے والد زندہ ہوتے تو ہم اللہ سے ان کی بخشش اور رحمت کے لئے دعا کرتے۔ پھر آپﷺ نے حکم دیا کہ اس خاتون کو اس کے والد کی شرافت کی وجہ سے آزاد کر دیا جائے۔ اس خاتون نے تقاضا کیا کہ اس کے ساتھ جتنے بھی لوگ ہیں سب کو آزاد کیا جائے۔ اس پر آپﷺ نے حکم دیا کہ باقی سب کو اس خاتون کی شرافت کی وجہ سے آزاد کیا جائے۔ آپﷺ نے مزید فرمایا: “تین طرح کے لوگوں پر رحم کرو؛1) وہ معزّز شخص جو عزّت ملنے کے بعد خوار ہوا ہو2) وہ دولتمند جو محتاج ہو چکا ہو3) وہ دانشمند / عالم جو نادانوں کے بیچ میں ضائع ہو چکا ہو” اس کے بعد آپﷺ نے کئی اونٹ اور گوسفند اس گروہ کو ہدیہ کئے۔ حاتم طائی کی بیٹی یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوئی اور کہا کہ یہ جود و سخا ان کا طرّہ ہے جو فقر و فاقہ سے نہیں ڈرتے۔ آپﷺ نے جواب دیا کہ میرے رب نے اسی طرح میری تربیت کی ہے۔ پھر اس خاتون نے اجازت چاہی کہ مجھے واپس جانے دیں، آپﷺ نے فرمایا کہ جب تمہاری قوم سے کوئی بااعتماد شخص ملے تو آپ چلی جائیں۔ کچھ دن یہ خاتون مہمان رہیں اور جب اس کے رشتے دار آئے تو رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ محمل تیار کروائی، اور راستے میں جب بھی حاتم طائی کی بیٹی محمل سے باہر دیکھتی تو ایسے افراد کو دیکھتی جو برہنہ تلواریں لئے اس کی حفاظت پر مامور تھے۔
جب وہ اپنے وطن واپس پہنچیں تو اپنے بھائی عدی بن حاتم سے کہا کہ جاؤ محمدﷺ سے ملحق ہو جاؤ، وہ ایک سچے اور باعظمت نبی ہیں۔ عدی بن حاتم تیار ہوئے اور مدینہ پہنچے، رسولﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو۔ انہوں نے جواب دیا عدی بن حاتم ہوں۔ آپﷺ فورا اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور اپنی چادر عدی بن حاتم کے لئے بچھا دی۔ آپﷺ کے اس احترام کو دیکھتے ہوئے عدی بن حاتم مسلمان ہو گئے۔