ڈائمنڈ جم براڈلے، براڈوے کا ہارون الرشید، پہلی جنگ عظیم کے دوران فوت ہوا تھا۔ اس کی موت نے براڈوے کو ایک عظیم شخصیت سے محروم کر دیا۔ اپنی زندگی میں ڈائمنڈ جم براڈلے اتنی عظیم الشان دعوتیں دیا کرتاتھاکہ انہیں دیکھ کر رومن سلطنت کی عظیم الشان ضیافتیں یاد آ جاتی تھیں۔ بعض اوقات وہ نیو یارک میں ایک ہی اوقات میں مختلف پانچ جگہوں پر دعوتیں دیا کرتاتھا۔
کئی دفعہ یوں بھی ہوا کہ یہ دعوتیں سترہ سترہ گھنٹے مسلسل جاری رہیں اور ان پر اس کا 20,000 پونڈ خرچ اٹھ جاتا تھا۔ جاتی دفعہ وہ اپنے مہمانوں کو طلائی گھڑیاں اور جواہرات کے تحفے دیتا۔ ان میں سے بعض طلائی گھڑیوں کی قیمت 200 پونڈ ہوتی۔ڈائمنڈ جم براڈلے نیو یارک میں ساحل سمندر پر ایک دکان کے اوپر ایک چھوٹے سے خستہ حال چوبارے میں پیدا ہوا۔ اس کاباپ ایک شراب خانہ چلاتا تھا۔ ڈائمنڈ جم براڈلے نے ابھی بولنا بھی نہ سیکھا تھا کہ اسے شراب کی بوتل میں سے کارک نکالنا آ گیا۔ اس کے باوجود اس نے کبھی زندگی میں شراب کو منہ نہیں لگایا۔ جن دنوں براڈوے میں اس کا راج تھا۔ اس نے شراب کی اتنی بوتلیں خریدیں کہ شاید کوئی اس کا مقابلہ کرسکے۔ لیکن یہ سب کچھ وہ اپنے دوستوں کے لیے کرتا۔ جب اس کے دوست شراب پینے میں محو ہوتے تو وہ بڑے شوق سے کہا کرتا۔ ایک ہی وقت میں بیئر کی دس بارہ بوتلیں پی جانا اس کے نزدیک معمولی بات تھی۔اس کاوزن پونے تین پونڈ کے قریب تھا۔ کھانے کا وہ بے حد شوقین تھا۔ ہر رات اس کی میز پر پندرہ مختلف قسم کے کھانے ہوتے اور وہ ان سب کو چٹ کر جاتا۔ پھر وہ ایک پونڈ چاکلیٹ کھاتا اور تھیٹر جاتے وقت پیپرمنٹ کا ڈبہ اپنے ساتھ لے جاتا ۔ وہ ہر ہفتے اپنے احباب کو مٹھائیوں کے سیکڑوں ڈبے بھیجتا۔ اس کا فقط مٹھائی وغیرہ کا ماہوار بل چار سو اور چھ سو پونڈ کے درمیان ہوتاتھا۔
اسے چائے اور کافی سے نفرت تھی۔ لیکن مالٹوں کے رس کا بے حد دلدادہ تھا۔ وہ کھانے سے پیشتر مالٹوں کے رس کے چار گلاس پیتاتھا۔ ایک دفعہ وہ بیٹھا بیٹھا چھ مرغ کھا گیا۔ یہ باتیں آپ کو مضحکہ خیز معلوم ہوں گی۔ لیکن بڑھاپے میں جب ایک بیماری کے سبب اس کا آپریشن کیاگیا تو ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ اس کا معدہ عام معدے سے چھ گنابڑاتھا۔ڈائمنڈ جم براڈلے نے لاکھوں روپے کس طرح کمائے؟
وہ اپنے زمانے کا ایک بہترین سیلز مین تھا۔ اس کے علاوہ خوش قسمت بھی تھا۔ زندگی میں ترقی کرنے کا اسے ایک موقع مل گیا۔ جس زمانے میں امریکی گاڑیوں کے ڈبے لکڑی کے بنے ہوتے تھے۔ اس نے لوہے کے بنے ہوئے ڈبے فروخت کرنے شروع کر دیے۔ ملک ترقی کی راہ پر برق رفتاری سے چل رہا تھا ہرسمت دور دراز علاقوں تک ریل کی پٹڑیوں کا جال بچھایا جا رہا تھا۔جب اس نے لوہے کے ڈبے فروخت کرنے شروع کیے تو ان دنوں ایسے ڈبے بطور تجربہ استعمال ہو رہے تھے۔
اسے ایک بہت بڑا ٹھیکہ مل گیا۔ فروخت ہونے والے ہر ڈبے پر اسے 331/2فی صد کمشن ملنے لگا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں امریکہ کی ہر کمپنی لوہے کے ڈبوں کا مطالبہ کرنے لگی۔ ان سب کو ڈائمنڈ جم براڈلے کے پاس آنا پڑتا۔ کیونکہ اس زمانے میں اس کا مدمقابل کوئی نہیں تھا۔ لہٰذا اس نے لوہے کے ڈبے فروخت کرکے 25000000 پونڈ کمائے۔ وہ اپنے زمانے کی پیداوارتھا۔ اگر وہ چالیس برس بعد پیدا ہوتا اور آج لوہے کے ڈبے فروخت کرنے کی کوشش کرتاتو گھر کے اخراجات بھی بمشکل چلا سکتا تھا۔
ڈائمنڈ جم براڈلے نے اپنے آپ کو مشہور کرنے کا ایک ایسا انوکھا طریقہ ایجاد کیا جو اپنی مثال آپ تھا۔ وہ ہر وقت ہیرے جواہرات سے لیس رہتا۔ ہر روز وہ جواہرات کاایک نیا سیٹ استعمال کرتا اور بعض اوقات دن میں چھ سات مرتبہ وہ گھڑی کی زنجیر، قمیض کے بٹن اور سٹڈ وغیرہ تبدیل کرتا۔ جب وہ براڈوے میں داخل ہوتا تو اس کی قمیض میں اڑھائی سو سے زیادہ ہیرے جڑے ہوتے۔ اس کی قمیض کے بٹن گراں قدر ہوتے، ان سٹڈوں پر سائیکلوں، موٹروں اور انجنوں وغیرہ کا ڈیزائن بنا ہوتا۔
روپیہ خرچ کرنے کے سلسلے میں وہ وہم و گمان کی حد تک فراخ دل واقع ہواتھا۔ نیو جرسی میں اس کا ایک فارم تھا۔ جہاں دعوتوں وغیرہ کے موقعوں پر بھینسوں اور گائیوں کی دودھ سونے کے برتنوں میں دھویا جاتا تھا۔ اس کے بلیئرڈ ٹیبل پر لوہے کی بجائے سونا لگا ہواتھا اور وہ سارے کا سارا ساگوان کا بنا ہواتھا۔ اس کی تاش کھیلنے والی میز پر ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ اس نے اپنے گھر کی آرائش کے لیے ایک مصور کو 300,000 پونڈ دیے۔
وہ ہر سال اپنا پرانا فرنیچر اپنے احباب میں تقسیم کر دیتا اور خود نیا خریدتا تھا۔اس نے للیئن رسل ایکٹرس کو ایک ایسا سائیکل بطور تحفہ دیا، جس کے پہیے سونے کے تھے اور سارے سائیکل پر جواہرات جڑے ہوئے تھے جب اس سائیکل پر سوار ہو کر للیئن ففتھ ایونیو سے گزرتی ہوگی تو آپ خود ہی اندازہ کرلیں لوگوں کا کیاحشر ہوتا ہو گا۔ڈائمنڈ جم براڈلے کے پاس پانچ ہزارسے اوپر رومال اور دو سو سے زیادہ سوٹ تھے۔ فراک کوٹ اورریشمی ہیٹ کے بغیر اسے کبھی عوامی محفل میں نہ دیکھاگیا۔
جب وہ کار میں بیٹھ کر یونہی ذرا گھومنے پھرنے کے لیے نکلتا اور اسے دیکھنے والا اس کے کتے کے سوا اور کوئی نہ ہوتا تو پھر بھی اس نے فراک، کوٹ اور ریشمی ہیٹ پہن رکھا ہوتا اور جواہرات سے مزین چھڑی اس کے ہاتھ میں ہوتی۔ڈائمنڈ جم براڈلے کا معدہ عام معدوں سے چوگنا بڑاتھا۔ تو یہی حالت اس کی وسیع قلبی کی تھی۔ کئی برس تک یہ سلسلہ جاری رہا کہ جو کوئی بھی اس سے طلب کرنے آیا، اس نے انکار ہرگز نہ کیا۔
وہ جانتا تھا کہ روپیہ ادھار طلب کرنے والے اسے ہرگز رقم واپس نہ کریں گے لیکن پھر بھی اس نے یہ سلسلہ محض تفریح سمجھ کر جاری رکھا۔ کیا آپ اس تفریح کے متحمل ہوسکتے ہیں؟جب اس کے مرنے کاوقت قریب آیا تو اس کے پاس کوئی 40,000 پونڈ کے نوٹ تھے۔ مرنے سے پہلے اس نے وہ تمام نوٹ جلا دئیے۔ اس موقع پر اس نے کہا تھا کہ وہ مرنے کے بعد کسی قسم کی درد سر نہیں چھوڑنا چاہتا۔‘‘مرنے سے پہلے وہ اپنی ساری دولت اور جائیداد خیرات میں دے گیا۔
اس کے ہیرے جواہرات کی قیمت 40,000 پونڈ سے زیادہ تھی۔ جن چیزوں میں وہ جڑے ہوئے تھے۔ انہیں وہاں سے نکال کر انگشتریوں میں لگاکر فروخت کیاگیا۔ آج بھی بہت سی خواتین کے پاس وہ ہیرے جواہرات موجود ہوں گے۔ جو ایک زمانے میں ڈائمنڈ جم براڈلے کی خوب صورتی میں اضافہ کیا کرتے تھے۔ہر کوئی ’’ڈائمنڈ جم براڈلے‘‘ سے مبحت کرتاتھا۔ اس کے باوجود وہ ساری عمر کنوارہ رہا۔ للئین رسل کی جھولی میں اس نے 20,000 پونڈ ڈال کر اس سے شادی کی درخواست کی، مگر اس نے انکار کر دیا۔ ایک دفعہ اس نے کہا تھا کہ ’’دنیا بھر میں کوئی ایسی عورت نہ ہو گی جو مجھ جیسے بدصورت آدمی سے شادی کرے۔‘‘ اور وہ میز پر سر رکھ کر بچوں کی طرح رونے لگا۔