آج سے کوئی پچھترسال پہلے ایک سکول کی معلمہ روزانہ کلاس میں ایک چھوٹے سے لڑکے کے کان کھینچا کرتی تھی۔ کیونکہ یہ لڑکا اپنی جگہ پرنچلا نہیں بیٹھ سکتاتھا اور یونہی اٹھ کر ادھر ادھر دیکھتا رہتاہے۔ وہ پوری کلاس کے سامنے اس کے کان کھینچتی اور اتنی اس کی بے عزتی کرتی کہ وہ گھر جاتے ہوئے سارے راستے روتا جاتا تھا۔ اس وقت اس لڑکے کی عمر صرف پانچ سال کی تھی۔
لیکن اس عمر میں بھی اسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ اس کے ساتھ ظالمانہ اور غیرمنصفانہ سلوک کیاجاتا ہے۔ اس طرح اسے ظلم اور بے انصافی سے نفرت ہو گئی اور اس جذبے کے تحت وہ عمر بھر جدوجہد کرتا رہا۔اس لڑکے کا نام کلیرنس ڈیرو تھا۔ جو امریکہ میں غالباً اپنے وقت کا مشہور ترین وکیل تھا اور یہ بات تو خیر پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت فوجداری کے مقدمات میں تو اس کے پائے کا کوئی بھی وکیل نہیں تھا۔ ملک کے تمام مشہور روزنامے اس کے مقدمات کی خبریں بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع کرتے تھے۔اس نے جو پہلا مقدمہ لڑا۔ (اشتابولا) لوہیو کے پرانے لوگوں کے دلوں میں اب بھی اس کی یاد باقی ہے۔ اس مقدمے میں کوئی لاکھوں روپے کی جائیداد کا نہیں، صرف گھوڑے کی ایک پرانی زین کا جھگڑا تھا۔ جس کی قیمت مشکل سے ایک پونڈ ہو گی۔ لیکن کلیرنس ڈیرو کے نزدیک یہ ایک اصول کاسوال تھا۔ بے انصافی نے سر اٹھایا تھا۔ اس نے یہ مقدمہ لڑنے میں اتنی جان ماری کہ جیسے وہ کسی شیر کے ساتھ نبردآزما ہو۔اس مقدمہ کا معاوضہ صرف ایک پونڈ تھا۔ اس نے اس مقدمے پر اپنی جیب سے بہت سا روپیہ خرچ کیااورآخر سات سال عدالتوں کی خاک چھاننے کے بعد مقدمہ جیت لیا۔ڈیرہ کہتا ہے کہ اس نے کبھی روپے پیسے کا یاعزت افزائی کا لالچ نہیں کیا۔ وہ اپنے متعلق یہ بھی کہتا ہے کہ وہ انتہائی سست ہے۔
اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں اس نے ایک دیہاتی مدرسے میں پڑھانا شروع کیا۔ اس دوران ایک روز ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ جس سے اس کی قسمت نے پلٹا کھایا۔ جس گاؤں میں یہ مدرسہ تھا۔ وہاں ایک لوہار بھی رہتاتھا۔ جو اپنی دکانداری سے وقت نکال کر قانون کی تعلیم حاصل کیاکرتاتھا۔ڈیرہ لوہار کی اس لگن سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے کتابیں مانگیں اور خود بھی مطالعہ شروع کر دیا۔
سکول میں اسے جو بھی وقت ملتا وہ اپنی کتابوں پر صرف کرتا۔ڈیرو بتاتا ہے کہ اگر اس کی زندگی میں یہ ایک واقعہ پیش نہ آتا تو شاید وہ عمر بھر دیہاتی عدالتوں میں پڑا رہتا۔ہوا یوں کہ اس نے اور اس کی بیوی نے ایک دندان ساز سے اشتبھولا میں (اوہیو) میں ایک چھوٹا سا گھر خریدنے کا ارادہ کیا۔ مکان کی قیمت سات سو پونڈ تھی۔ ڈیرو نے بنک سے سو پونڈ نکلوائے (اور سرراہے یہ بھی سن لیجئے کہ اس کی تمام پونجی ہی اتنی تھی۔)
اور مالک مکان سے یہ شرط طے کی کہ وہ باقی رقم سالانہ قسطوں میں ادا کرے گا۔ معاہدے کی تمام تفصیلات طے ہو چکی تھیں کہ عین وقت پر دندان ساز کی بیوی نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔اس نے ڈیرو کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو نوجوان کھری بات تو یہ ہے کہ مجھے یہ امید نہیں کہ تم زندگی بھر سات سو پونڈ کما سکو گے۔ ڈیرو یہ سن کر تلملاگیا۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ ایسے گاؤں میں نہیں رہے گا۔
چنانچہ وہ اشتبھولا کو خیرباد کہہ کر شکاگو چلاگیا۔ شکاگو آنے کے بعد اس کے پہلے سال کی آمدنی صرف ساٹھ پونڈ تھی۔ اتنی قلیل آمدنی میں وہ اپنے کمرے تک کاکرایہ آسانی سے ادا نہیں کر سکتا تھا لیکن دوسرے سال یہ آمدنی دس گنا ہو گئی یعنی چھ سو پونڈ۔ اب ڈیرو شہر میں خاص اٹارنی بن چکا تھا۔ڈیرو کا کہنا ہے کہ جب میرے دن پھرنے لگے تو ہر رکاوٹ خود بخود دور ہونے لگی۔ بہت جلد اسے شکاگو اور نارتھ ویسٹرن ریلوے کمپنی کا اٹارنی بنا دیاگیا اور اس کی آمدنی میں بہت اضافہ ہو گیا پھر ایک زبردست ہنگامہ ہوا۔
ہڑتال، نفرت، دنگا فساد، خون خرابہ۔ ڈیرو کی ہم دردیاں ہڑتالیوں کے ساتھ تھیں۔ جب ریلوے یونین کے صدر یوگین ڈیز پرمقدمہ چلایاگیاتو ڈیرو نے ملازمت چھوڑ دی اور محکمے کی قانونی پیروی کرنے کی بجائے ہڑتالیوں کے وکیل کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوا۔ یہ ڈیرو کا سنسنی خیز مقدمہ تھا۔ اس کے بعد اس نے کئی ایسے زبردست مقدمے لڑے کہ جن کی صدائے بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پرلیوپولڈ اور لوب کا مشہور مقدمہ لیجئے یہ دونوں ایک بے گناہ شخص بوبی فرلینکس کے قاتل تھے۔
لوگ اس سفاکانہ قتل پر اس قدر برافروختہ تھے کہ جب کلیرنس ڈیرو نے دونوں قاتلوں کی پیروی کرنے کی ذمہ داری سنبھالی تو اس پر نفرت اور حقارت کے پتھر پھینکے گئے اور مجرم کا لقب دیاگیا۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ ڈیرو کہتا ہے ’’میں نے یہ مقدمہ اس لیے لیا ہے تاکہ میں ان ملزموں کو نفرت کی لہر سے بچا سکوں۔ آج تک میرا کوئی موکل سولی پر نہیں چڑھا اور اگر کبھی ایسا ہوتا تو میں شاید اپنی جان لے لیتا۔ میں آج تک کسی مجرم کے تختہ دار پر لٹکنے کی داستان تک پڑھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
اگر میرے شہر میں کبھی کسی کو پھانسی ملنا ہوتی تو میں شہر سے باہر چلاجاتا۔ میں کسی بھی شکل میں کسی کی جان لینے کے حق میں نہیں۔ ’’معاشرہ مجرموں کو جنم دیتا ہے۔ وہ کہا کرتاتھا اور کوئی شخص کسی بھی وقت مجرم بن سکتا ہے۔‘‘ ڈیرو کو خود بھی اس بات کا تجربہ تھا، کہ مقدمہ بازی کتنی بڑی لعنت ہے۔ ایک بار اس پر جیوری کو رشوت دینے کا مقدمہ چلایا گیا اور اسے اپنی صفائی کے لیے اپنی قانونی ذہانت اور جسارت کا سہارا لینا پڑا۔
اس مقدمے کے دوران میں ڈیرو کو ایسے الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا کہ اسے زندگی بھر یاد رہا۔ اس کا ایک پرانا موکل اسے ملا اور کہنے لگا بات یہ ہے کہ ایک بار آپ نے مجھے سزائے موت سے بچایا تھا۔ اب آپ مصیبت میں ہیں اور میں آپ کی مدد کرناچاہتا ہوں۔ آپ ایک اشارہ کریں تو میں اس مقدمے میں آپ کے خلاف سب سے بڑے گواہ کو ہلاک کرنے کو تیار ہوں اور اس کے لیے آپ کو ایک سینٹ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔
چند سال پہلے ڈیرو نے ایک کتاب شائع کی۔ جس میں اس کی اپنی زندگی کی کہانی ہے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اس کتاب کے ایک باب کے مطالعے کے لیے رات بھر جاگتا رہا۔ اس باب میں ڈیرو نے بتایا تھا کہ زندگی کے بارے میں اس کے نظریات کیا ہیں؟۔ لکھا تھا۔۔۔ میں پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ میں نے زندگی میں واقعی کہاں تک کامیابی حاصل کی ہے۔ میں نے غلطیاں بھی کی ہیں اور تقدیر کے مضبوط ہاتھوں سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مسرتیں چھیننے کی کوشش بھی کی ہے۔
ہمیں زندگی کے سفر کا رخ اور انجام پیش نظر رکھنا چاہیے اور اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری زندگی کا ہر دن اپنی جگہ مکمل ہو۔ مجھے یہ یقین نہیں آتا کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تو میں نے دنیا کے سامنے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت میرے پاس اپنا سفر کرنے کے لیے بہت سارا وقت تھا۔ اب سفر ختم ہونے کے قریب ہے اور سورج غروب ہو رہا ہے۔ آغاز سفر کے وقت راستہ کتنا طویل دکھائی دیتا تھا اور اب یہ کتنا مختصر معلوم ہوتا ہے۔