بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

ہیرلڈ لائیڈ،بیس برس کی عمر سے پہلے اسے خود بھی معلوم نہ تھا کہ اس کے اندر مزاح کا عنصر موجود ہے

datetime 11  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ ہیرلڈ لائیڈ کو پہلی دفعہ دیکھ کر مجھے سخت صدمہ ہوا۔ بہتر تھاکہ میں اسے پردہ سیمیں پر دیکھنے کے بعد حقیقی دنیا میں نہ ہی دیکھتا۔ وہ لوگوں کے اس خیال سے خود بھی متفق ہے اور کہتاہے کہ وہ حقیقی دنیا میں لوگوں کے سامنے آ کر انہیں صدمہ پہنچانے کے حق میں نہیں ہے۔مثلاً ایک دفعہ وہ اپنے دوست کے ہمراہ ایک پارٹی میں آیا۔

اس کے دوست نے عینک لگا رکھی تھی۔ (ہیرلڈ لائیڈ اپنی روزمرہ زندگی میں عینک استعمال نہیں کرتاتھا۔) اس کے دوست کی شکل بھی اس سے نہ ملتی تھی۔ لیکن ہر کسی نے یہی سمجھا کہ دھاریوں والا عینک والا لڑکا ہیرلڈ لائیڈ ہی ہے۔ اس کا دوست لوگوں سے بار بار کہہ رہاتھا کہ جناب آپ سے غلطی ہوئی ہے۔ میں ہیرلڈ لائیڈ نہیں ہوں۔۔۔ وہ وہاں بیٹھا ہے۔۔۔ لیکن مہمانوں کا خیال تھا کہ وہ اس وقت بھی مذاق کے موڈ میں تھا۔ میں نے ہیرلڈ لائیڈ کو ہمیشہ خاموش طبع اور محنتی خیال کیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے میں نے گھنٹوں اس سے گفتگوکی ہے۔ اس دوران میں اس کے قہقہوں کا طوفان لمحہ بھر کے لیے نہیں رکتا۔ آپ سمجھیں گے اس کی تربیت ٹھیک طور پر نہیں ہوئی۔ یہ بات نہیں وہ بڑاجمہوریت پسند اور پرخلوص ہے۔ہیرلڈ لائیڈ توہمات سے سخت نفرتکرتا ہے۔ وہ انہیں زمانہ جاہلیت کی پیداوار خیال کرتا ہے۔ اس کے باوجود وہ چند ایک توہمات کا شکار ہے۔ مثال کے طور پر وہ لاس ایجلز کی ایک سرنگ میں سے ہرگز نہیں گزرتا۔ کیونکہ اس کا خیال ہے اس سرنگ میں سے گزرنا بدقسمتی کو دعوت دینا ہے۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ جس دروازے سے کسی مکان میں داخل ہو اسی سے باہر نکلے۔ وہ اپنی جیب میں ہر وقت چند بابرکت سکے رکھتا ہے۔اس کی تازہ ترین ہابی مصوری ہے۔ وہ جادو اور تاش کے کھیلوں سے اپنے دوستوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔

کتے پالنے کا اسے بے حد شوق ہے۔ ایک زمانے میں اس کے پاس ستر سے زیادہ کتے تھے۔اس نے مجھے ایک معمولی واقعہ سنایا، جو اس کی زندگی میں بارہ برس پہلے رونما ہواتھا مگر اس نے ہیرلڈ لائیڈ کی زندگی کارخ بدل دیا۔ایک دن جب وہ اوہاما (بندسکا) میں سکول سے چھٹی کے بعد گھر واپس جا رہا تھا تو راستے میں اسے ایک گلی کی نکڑ پر ایک نجومی دکھائی دیا۔ جس نے اپنے چاروں طرف چارٹ وغیرہ پھیلا رکھے تھے۔

اس نجومی کادعویٰ تھا کہ وہ آپ کے ستاروں کو دیکھ کر آپ کی قسمت بتا سکتا ہے۔ ننھا ہیرلڈ لائیڈ حیرت زدہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی باتیں سنتا رہا۔ اچانک آگ بجھانے والا انجن گزرا اور لڑکے اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگے لیکن وہ وہیں کھڑا نجومی کی باتیں سنتا رہا۔ لڑکے کونجومی کی باتیں بڑی عجیب و غریب محسوس ہو رہی تھیں۔ ہجوم میں کھڑا ایک شخص یہ بات نوٹ کر رہا تھا۔ اس شخص کا نام جون لین کونور تھا۔

جو اوہاما کی بروڈ سٹاک کمپنی کا کرتا دھرتا تھا۔ وہ ہیرلڈ لائیڈ کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا کہ کیا یہاں کوئی ایسی جگہ ہے۔ جہاں ایکٹروں کی رہائش اور خوراک کا انتظام ہو سکے؟ خوشی سے ہیرلڈ لائیڈ کی باچھیں کھل گئیں اگر اس کے بس میں ہوتا تو بروڈ سٹاک کمپنی کے تمام ایکٹروں کو اپنے گھر ٹھہرا لیتا۔ کئی برس سے وہ ایکٹر بننے کا خواب دیکھ رہا تھا۔اس نے اپنے گھر کے ایک تہہ خانے میں ایک اسٹیج بنا رکھا تھا۔

وہ بچوں کے لیے ڈرامے لکھتااور انہیں اسٹیج کرتاتھا۔ ایسے ڈرامے دیکھنے کے لیے محلے بھر کے لڑکے آتے اور وہ ہر لڑکے سے تین پنس بطور ٹکٹ کے وصول کرتاتھا۔اس وقت سے مقامی تھیٹریکل کمپنی کو جب کبھی بچے کے کردار کے لیے کسی لڑکے کی ضرورت ہوتی تو ان کی یہ ضرورت ہیرلڈ لائیڈ ہی پوری کرتاتھا۔ہیرلڈ لائیڈ کا والد سلائی مشین فروخت کرنے کا کاروبار کیاکرتاتھا۔ ایک دن کار کے ایک حادثے میں اس کی پشت پر گہری چوٹ لگی اور اسے بیمہ کمپنی کی طرف سے سات سو پونڈ مل گئے۔

یہ خدا کی دین تھی۔ لہٰذا اس نے وہ شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں رہائش اختیار کرکے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ وہ کس شہر میں جائے ان کیخاندان کے کچھ افراد تو کیلی فورنیا میں اور کچھ نیو یارک میں مقیم تھے۔آخر ہیرلڈ لائیڈ کے باپ نے کہا ’’ہم ٹاس کرتے ہیں۔‘‘ اگر سر آ گیا تو ہم نیویارک جائیں گے اور اگر دم آ گئی تو ہم کیلی فورنیا جائیں گے۔ سکہ ہوا میں اچھالا گیا تو سرآیا۔ لہٰذا ہیرلڈ لائیڈ کاسارا کنبہ شہر سان وائجو چلاگیا۔

وہاں ہیرلڈ لائیڈ مقامی تھیٹر میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرنے لگا۔ آخر اسے فلموں میں کام کرنے کا موقع بھی ملنے لگا۔ پہلی دفعہ اسے فلم میں ایک انڈین کا رول ملا۔ جس نے پھلوں کی ایک طشتری چند سفید فام لوگوں کے حوالے کرنی تھی۔ اس زمانے میں اس کا خیال تھا کہ فلمی صنعت زیادہ ترقی نہیں کرے گی لیکن جب وہ بھوکا مرنے لگا تو اس نے فلموں میں باقاعدہ کام کرنے کے متعلق سنجیدگی سے غور کرنے لگا۔ وہ ہر روز ڈائریکٹروں سے ملنے جاتا مگر کوئی اسے منہ نہ لگاتا تھا۔

ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک فلم کمپنی کے ایکٹر وغیروہ ایک کمرے سے نکل کر دوپہر کے کھانے کے لیے سڑک کے پاردوسرے کمرے میں جا رہے ہیں۔ کھانے کے بعد جب وہ واپس آئے تو چوکیدار نے بلاتامل انہیں اندر چلے جانے دیا۔اس سے پہلے ہیرلڈ لائیڈ نے جب بھی اس کمپنی میں داخل ہونے کی کوشش کی تو چوکی دار اس کے راستے کی دیوار بن جاتا۔ اسے ایک ترکیب سوجھی۔ دوسرے دن جب ایکٹر کھانے سے فارغ ہو کر میک اپ روم میں داخل ہونے لگے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔

کئی دن وہ بغیرکسی کام کے وہاں بیٹھا ایکٹروں سے گپ بازی میں مشغول رہتا۔ وہ اسے پسند کرنے لگے تھے۔ جب کبھی چوکیدار اسے اندرنہ گھسنے دیتا تو وہ لوگ اسے کھڑکی کے راستے کمرے میں کھینچ لیتے۔ان ایکٹروں میں ہال روچ نامی ایک ایکٹر بھی تھا۔ اس نے ایک روز ہیرلڈ لائیڈ کو بتایا کہ اس کی چچی فوت ہو گئی ہے اوروہ اس کے نام کچھ رقم چھوڑ گئی ہے۔ اس رقم سے اس کا ارادہ فلم بنانے کا ہے۔

وہ مزاحیہ فلم ہوگی اور ہیرلڈ لائیڈ کو وہ ضرور اس میں کوئی نہ کوئی رول دے گا۔ہیرلڈ لائیڈ نے ابتداء میں ایک ریل کی مزاحیہ فلموں میں کام کرنا شروع کیا۔ وہ عجیب وغریب پتلونیں پہن کر چارلی چپلن کی نقل اتارنے کی کوشش کرتا۔ ایک روز اتفاقیہ طور پر اسے ایک ایسا خیال سوجھا کہ جس نے اس کی قسمت بدل دی۔ وہ بے حد تھکا ہواتھا۔ لہٰذا تفریح کے لیے وہ ایک تھیٹر میں چلاگیا۔

وہاں اس نے ایک ایکٹر دیکھا جس نے تنکوں کا ہیٹ اوردھاریوں والے فریم کی عینک لگا رکھی تھی۔ وہ ایک مبلغ کارول ادا کر رہا تھا۔ وہ ایکٹر ہرگز مزاحیہ بننے کی کوشش میں نہ تھا لیکن ہیرلڈ لائیڈ نے اسی وقت دھاریوں والے فریم کی عینک کو اپنا امتیازی نشان بنانے کا فیصلہ کر لیاتھا۔ اس ذرا سی تبدیلی نے اسے بے حد نامور کردیا۔ ہیرلڈ لائیڈ کے متعلق سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بیس برس کی عمر سے پہلے اسے خود بھی معلوم نہ تھا کہ اس میں مزاح کا عنصر موجود ہے۔

اس سے پہلے وہ شیکسپیئر کے ڈرامے پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ جب اس نے فلموں میں کام شروع کیا تو ڈائریکٹر اسے باربار کہتے تھے کہ وہ مزاحیہ حرکتیں مت کرے۔ کیونکہ وہ ہرگز کامیڈین نہیں بن سکتا اور اسے روزی کمانے کا کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیے لیکن اس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور آج اس کاشمار دنیا کے امیر ترین ایکٹروں میں ہوتا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…