بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

کیتھرین ہپ برن،وہ تین سو پونڈ ہفتہ وارکمانے کے باوجود جہاز کے تیسرے درجے میں سفر کیاکرتی تھی

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ایک رات کونکئی کٹ میں سرخ بالوں والی ایک چھوٹی لڑکی اپنے سکول کے سٹیج پر بڑے اعتماد کے ساتھ ’’بلن ہم کی لڑائی‘‘ نامی منظوم نظم پڑھنے کے لیے گئی۔ اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے خالی تھا۔ سامعین میں اس کے والدین اور پانچ بہن بھائی بھی بیٹھے تھے۔ سکول میں کوئی سالانہ تقریب تھی۔ لیکن جونہی کیتھرین سٹیج پر آئی اور اس نے نظم کی پہلی سطر ادا کرنے کے لیے لب کھولے۔

اس پر سامعین کا خوف طاری ہو گیااور اس کی زبان نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں اس کی گھگھی بندھ گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے، آخر کار بے عزتی کا احساس لیے وہ مڑی اور بھاگ گئی۔اس وقت کیتھرین ہپ برن کی عمر صرف تیرہ برس تھی۔ لیکن اس سے دوگنی عمر میں وہ فلموں میں کام کرکے انعامات اور تمغے حاصل کر رہی تھی۔ 1933ء میں اسے ’’صبح کی عظمت‘‘ اور 1934ء میں اسے ’’ننھی بیویاں‘‘ نامی فلموں میں کام کرنے پر انعام ملا تھا۔ابھی اس نے تعلیم سے فراغت ہی پائی تھی کہ دیوتا اس پرمہربان ہوگئے۔ سٹیج پر فقط دو ہفتے کام کرنے کیبعد اسے براڈوے کے ’’بڑاتالاب‘‘ نامی ڈرامے میں ایک اہم کردار مل گیا۔ یہ غیر معمولی بات تھی لیکن ڈرامے کی ریہرسل کے دوران وہ اکثر ڈائریکٹر سے اس بات پر بحث کرتی رہتی کہ اسے اپنا کردار کس انداز میں انجام دینا چاہیے۔ ڈرامے کا ڈائریکٹر اپنی بات منوانے پر تلا ہواتھا لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے ڈرامے سے نکال دیاگیا۔اگلی دفعہ اسے ’’موت کی چھٹی‘‘ نامی ایک دوسرے ڈرامے میں ایک اہم کردار دیا گیا۔ لیکن اس دفعہ بھی اس کی بحث اور نکتہ چینی کی عادت نے بنا بنایا کام بگاڑ دیا۔ اور اسے نا اہل سمجھ کر پھر کھیل سے الگ کر دیاگیا۔پھر ایک اور سنہری موقع پکے پھل کی طرح اس کی جھولی میں خود بخود آن گرا۔

اسے ’’جانوروں کی دنیا‘‘ میں نسلی ہاورڈ کے بالمقابل ایک کرداردیا گیا۔ وہ سٹیج پر اپنا لوہا منوانے کے لیے بے قرار تھی۔ لہٰذا وہ ڈرامے سے کئی ماہ پیشتر اپنا کردار کا مطالعہ کرتی رہی۔ لیکن جب ڈرامے کی ریہرسل شروع ہوئی تو پھر وہی پرانی کہانی دہرائی گئی۔ اسے دوسروں کے مشوروں سے نفرت تھی۔ وہ اپنے خیال کے مطابق اپنارول ادا کرنے پر مصر تھی۔ اب کے پھر اسے ڈرامے کی کاسٹ سے نکال دیاگیا۔ ممکن ہے آپ اسے احمق کہیں اور اس کی مذمت کریں لیکن ٹھہریں ذرا دم لیں۔

میں آپ کے سامنے اس کے نظریے کی وضاحت کیے دیتاہوں۔ کیتھرین ہپ برن کا کہنا ہے کہ ’’میرا یقین ہے‘‘ کہ میں اگر اپنے انداز میں اپنا کردار ادا کروں گی تو کامیاب رہوں گی۔ میں جانتی تھی کہ دوسروں کے مشوروں پر عمل کرنے سے میرے کام میں دل کی لگن شامل نہ ہو گی اور میں ناکام ہو جاؤں گی۔ میرے خیال میں وہ بالکل حق بجانب تھی۔اس کا والد ایک فزیشن تھا۔ اس نے گھر میں ایک ورزش گاہ بنا رکھی تھی۔ جہاں اس کے چھ بچے ورزش کیا کرتے اور ایک دوسرے کو ہوا میں اچھال کر دبوچنے کی مشق کیا کرتے تھے۔

کیتھرین اس فن میں اس قدر ماہر ہو گئی تھی کہ وہ اپنے وزن سے دوگنے وزن کا شخص ہوا میں اچھال کر دبوچ لیتی تھی۔ غوطہ لگانے میں بھی اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ گالف کی وہ اتنی اچھی کھلاڑی تھی کہ ایک زمانے میں وہ اداکاری ترک کرکے گالف کا پیشہ ور کھلاڑی بننے کاسوچنے لگی۔ اس کے یہ سب کرتب براڈوئے کے کھیل ’’سپاہی خاوند‘‘ میں اس کے کام آئے۔ اسی کھیل سے وہ تھیٹر کی دنیا میں نامور ہوئی تھی۔

سٹیج پر اس کی نمایاں اداکاری سے متاثر ہو کر ہالی ووڈ والوں نے اس کا سکرین ٹیسٹ لیا اور تار کے ذریعے اس سے دریافت کیا کہ فلموں میں کام کرنے کا کیا معاوضہ لے گی اورتار کے ذریعے اس سے دریافت کیا کہ فلموں میں کام کرنے کا کیامعاوضہ لے گی؟ ہالی ووڈ والوں کا خیال تھا کہ وہ چالیس یا پچاس پونڈ ہفتہ وار تنخواہ سے زیادہ نہ بڑھے گی

لہٰذا جب اس کے ایجنٹ نے تار کے ذریعے ہالی ووڈ والوں کو اطلاع دی کہ مس کیتھرین ہپ برن 300 پونڈ ہفتہ وار تنخواہ پرکام کرنے کے لیے رضا مند ہو سکتی ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اس کے ایجنٹ سے غلطی ہو گئی ہے اور اس نے ایک صفر زیادہ لگا دیا ہے یاتار گھر والوں سے غلطی ہو گئی ہے۔ انہوں نے دوبارہ اس کے ایجنٹ کو تار دے کر وضاحت طلب کی تو اس نے جواب میں لکھا کہ نہ تو مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور نہ ہی تار گھر والوں سے۔ 300 پونڈ ہفتہ وار تنخواہ بھی کم ہے۔‘‘

جب کیتھرین ہالی ووڈ پہنچی تو اس کے ڈائریکٹر جارج گوکر نے اسے دیکھ کر کہا کہ اس کے بال تراش کے حاجت مند ہیں اور اس کا لباس دیکھ کر دوسرا شرمندہ ہو جاتا ہے۔کیتھرین ہپ برن نے گھبراہٹ کے عالم میں کہا ’’آپ کا کیا مطلب ہے یہ لباس تو میں نے پیرس کے بہترین درزی سے سلوایا ہے۔‘‘ لیکن میں نے اپنی زندگی میں اس سے برا لباس نہیں دیکھا۔ جارج گوکر نے جواب دیا ’’کوئی خوش لباس خاتون ایسالباس پہن کر اپنی خواب گاہ سے باہر نہیں نکل سکتی۔‘‘

کیتھرین ہپ برن پہلے تو گھبرا گئی مگر پھرگھبراہٹ دور کرنے کے لیے ہنسنے لگی۔ایک ماہر نفسیات بننے کے لیے کیتھرین ہپ برن چار سال تک نفسیات کا مطالعہ کرتی رہی۔ اسے عورتوں جیسے نخرے پسند نہ تھے وہ عجیب و غریب لباس اور کوہ پیمائی والے جوتے پہن کر ہالی ووڈ والوں کو حیران کر دیا کرتی تھی۔اس کی آنکھیں سبزی مائل نیلی اور بال سرخ تھے۔ جن دنوں وہ کسی فلم میں کام کر رہی ہوتی تو وہ ہر روز اپنے بالوں کو شیمپو کیا کرتی تھی۔ جس سے وہ شعلے کی طرح دمکنے لگتے۔

ایک دفعہ جب وہ کالج میں رقص کر رہی تھی تو ایک نوجوان سے بے خبری میں ٹکرا گئی۔ جب وہ معافی مانگنے کے لیے پیچھے ہٹا تو کیتھرین ہپ برن اسے غصیلی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ نوجوان کیتھرین کی اس ادا پر مر مٹا۔ چند ہی روز میں وہ ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ اور چاندنی راتوں میں اس کے درمیان عہد و پیمان ہونے لگے، چھ ماہ بعد انہوں نے شادی کر لی بعد میں وہ جدا ہو گئے۔ اس واقعے کے متعلق کیتھرین ہپ برن نے فقط یہ الفاظ کہے تھے ’’ہمارے لیے صرف یہی بہترین راہ عمل تھی۔‘‘

اس نے بحری جہاز کے تیسرے درجے میں سات دفعہ یورپ کا سفرکیا۔ ایک دفعہ اس زمانے میں جب ہالی ووڈ اسے تین سو پونڈ ہفتہ واردیاکرتا تھا۔ وہ اول درجے کی ٹکٹ خرید کر روپیہ ضائع کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اور کہا کرتی تھی ’’جہاز میں بیٹھ کر میں اتنی بیمار ہو جاتی ہوں کہ مجھے یہ ہوش ہی نہیں رہتا کہ میں اول درجے میں سفر کر رہی ہوں یاتیسرے درجے میں۔‘‘کاروباری معاملے میں وہ بے حد تیز تھی۔ ایک فلم میں کام مکمل کرنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ اسے ایک مزید منظر میں کام کرنا پڑے گا۔ اسے بلایاگیا۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس نے ایک دن مزید کام کرنے کامعاوضہ دو ہزار پونڈ لیے تھے۔ فلمی تاریخ میں فقط وہی ایک ایسی لڑکی ہے جس نے ایسا کیا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…