بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

چک سیل، وہ سولہ برس تک ایک ہی جوتا پہنتا رہا

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دنیا کی تاریخ میں فقط ایک مصنف ایسا ہے۔ جس نے ایک ایسی کتاب لکھی کہ اس کے ہر لفظ پردس پونڈ نفع کمایا۔ اس کتاب کا نام ’’دی سپیشلسٹ۔‘‘ اور مصنف کا نام ہے چک سیل۔’’دس سپیشلسٹ‘‘ چک سیل کی پہلی کتاب تھی۔ اسے یقین تھاکہ یہ کتاب بالکل فروخت نہ ہوگی۔ اس لیے اس نے فقط دو ہزار جلدیں شائع کرائیں اور یہ جلدیں چھ ہفتوں میں فروخت ہوئیں،

پھر اچانک کتاب کی شہرت جنگل کی آگ کی طرح سارے امریکہ میں پھیل گئی اور یہ کتاب ’’دی گڈارتھ‘‘ سے بھی زیادہ فروخت ہوئی تو کیا آپ کو اپنے آپ پر اور اس کتاب پر فخر نہ ہوگا لیکن چک سیل کو اپنی اس تصنیف پر کوئی فخر نہ تھا بلکہ اس کے برعکس اس کو ’’دس سپیشلسٹ‘‘ لکھنے پر افسوس ہوا۔ کیونکہ لوگوں کی زیادہ تعداد اس کتاب کا مزاح سمجھنے سے قاصر رہی اور بہتوں نے اس کی غلط تشریح کی تھی۔ لیکن اس کتاب نے جو کامیابی حاصل کی اس پر چک سیل کو بڑافخر تھا۔ جب اس کی موجودگی میں لوگ اس کتاب کا ذکر کرتے تو وہ گھبرا سا جاتا تھا اور اس کی کوشش ہوتی کہ اس کے سامنے کوئی اس کا ذکر نہ کرے۔ خصوصاً جب کوئی اس کتاب کے مزاح کو سوقیانہ قرار دیتا۔ ایک دفعہ اس کی لڑکی کتاب پڑھ کر رونے لگی، کیونکہ اس کاخیال تھا کہ اس کتاب نے ان کے خاندان کی عزت خاک میں ملا دی تھی۔ چک سیل محض اتفاقیہ طورپر مصنف بن گیا۔ حقیقت میں وہ ایکٹر تھا۔ ایک بہترین کریکٹر ایکٹر۔لیکن وہ ایکٹر بھی کم وبیش اتفاقیہ طور پر بنا تھا۔ کئی برسوں پہلے وہ اربانہ میں ریلوے ورکشاپ میں کام کیا کرتاتھا۔ اس کی بڑی بہن تھیٹر کی ایکٹریس بننا چاہتی تھی لہذا وہ شکاگو جاکروہاں ایک ڈرامیٹک سکول میں داخل ہو گئی۔ جب کرسمس کی چھٹیوں میں وہ گھر آئی تو اس نے ایک چرچ میں منعقد ہونے والے چیرٹی شو میں ایک دہقان کا مزاحیہ رول ادا کیا۔

جب وہ کردارانجام دے کر واپس آئی تو چک سیل نے کہا۔ یہ کوئی بڑی بات ہے، میں کسی ڈرامائی تربیت کے بغیر ایسا کر سکتا ہوں۔اس کی بہن نے اسے اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ اس نے سٹیج پر چڑھ کر ایک مقامی ٹیلی فون آپریٹر کی نقلیں اتارنا شروع کر دیں۔ ہنسی کے مارے لوگوں کی بری حالت ہوگئی اور وہ کرسیوں سے نیچے گرنے لگے۔ اگلے ہفتے اربانہ میں ایک گشتی تھیٹر آیا۔

ان کے پاس ایک مزاحیہ ایکٹر تھا جو مختلف مناظر کے بعد اسٹیج پر آ کر لوگوں کو ہنساتا رہتاتھا لیکن اتفاق سے وہ بیمارپڑ گیا۔ جب چک سیل کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس کام کے لیے اس نے تھیٹر کے منیجر کو درخواست دے دی۔ منیجرکو اس سلسلے میں اس کی صلاحیت پر شک تھا لیکن جب چک سیل نے بطورنمونہ اسے اپنی اداکاری دکھائی اور منیجر نے اسے پچاس شلنگ فی ہفتہ پر ملازم رکھ لیا۔

اس اتفاق نے چک سیل کی زندگی بدل دی۔ تھیٹر کی رنگارنگ روشنیاں، پانچ سو تماشائیوں کی تالیاں اور قہقہے یہ سب چیزیں چک سیل کے دل میں گھر کر گئیں۔ اب ریلوے ورکشاپ جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتاتھا۔ اس نے اپنا سوٹ کیس سنبھالا اور کسی تھیٹر میں ملازمت کرنے کے لیے شکاگو کی سمت چل پڑا۔ اس نے ایک سستے بورڈنگ ہاؤس میں رہائش اختیار کرلی اور اپنی اداکاری کی مشق کرنے لگا۔

اس نے سوچا کہ مونچھیں لگانے سے وہ قدرے بوڑھادکھائی دینے لگے گا۔ لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ مونچھیں کہاں فروخت ہوتی ہیں۔ لہٰذا اس نے ایک اونی چٹائی سے کچھ سخت بال نکالے اور ان سے مونچھوں کا ایک جوڑا بنالیا۔ وہ آٹھ ماہ تک سٹیج پر یہی مونچھیں استعمال کرتا رہا۔ آخر اس نے بازار سے مونچھیں خرید لیں۔ شروع میں اس کی تنخواہ بہت کم تھی اور اس کے لیے ہر پیسہ بڑا قیمتی تھا۔

خود کو زیادہ کھانے کی ترغیب سے بچانے کے لیے وہ کھاناکھانے سے پہلے سست قسم کی مٹھائی وغیرہ کھا لیتا تاکہ اس کی بھوک کم ہوجائے اور وہ کھانے کے پیسے بچاسکے۔ ایسی اشیاء کھانے کا یہ نتیجہ ہوا کہ اس کا معدہ خراب ہوگیا۔ بعد میں اسے پیٹ کے مختلف آپریشنوں پر ہزاروں پونڈ خرچ کرنے پڑے۔ پھر وہ جہاں کہیں جاتا اپنا خانساماں اپنے ہمراہ رکھتا۔ ہوٹل کے کھانے سے اسے نفرت ہو گئی تھی۔

وہ اپنے ہمراہ ایک سوٹ کیس بھی لے جایا کرتاتھا۔ جو ہزاروں لطیفوں سے بھرا ہوتاتھا۔ اس کے پاس لطیفوں کا ایک وسیع ذخیرہ تھا لیکن ذاتی قسم کی گفتگو کے دوران اس نے کبھی کوئی لطیفہ یا مزاحیہ بات نہ سنائی تھی۔اس نے براڈوے میں چھ میوزیکل مزاحیہ کھیلوں میں حصہ لیا۔ لیکن وہ بذات خود نہ تو گا ہی سکتاتھا اور نہ ناچ سکتاتھا۔ اس نے پیرس کی زندگی سے متعلق کئی ڈراموں میں کام کرکے ہزاروں پونڈ کمائے تھے لیکن وہ کبھی پیرس نہ گیاتھا۔

وہ جوتوں کا ایک ہی جوڑاسولہ برس تک پہنتا رہا۔ یہ جوڑا وہی تھا، جو اس نے کرسمس کے موقع پر ٹیلی فون آپریٹر کی نقلیں اتارتے وقت پہن لیاتھا۔ اس کا اعتقاد تھا کہ جوتوں کے اس جوڑے نے اس کی قسمت بدلی تھی۔ لہٰذا وہ مسلسل ان کی مرمت کراتا رہتا اور کوئی دوسرا جوتا پہننے سے انکار کر دیتا۔ ورائٹی پروگرام میں کام کرنے دوران اسے ایک خوب صورت لڑکی سے محبت ہو گئی۔ تھیٹر میں ہزاروں لوگوں کاسامنا کرتے وقت وہ بالکل نہ گھبراتا۔

لیکن اس لڑکی کوشادی کاپیغام دیتے وقت اس کی زبان لڑکھڑانے لگی اور وہ شرمانے لگا۔ اس کی حالت بے حد غیر ہونے لگی تھی اور وہ طبیعت خراب ہونے کا بہانہ کرکے اپنے کمرے میں چلا آیا۔ اپنے کمرے میں آ کر اس نے اسے ٹیلی فون پر شادی کا پیغام دیا جسے اس لڑکی نے قبول کر لیا۔ ان کی شادی ہوگئی، ان کے یہاں چار بچے پیدا ہوئے۔ ’’دی سپیشلسٹ‘‘ سے لاکھوں پونڈ کمانے کے بعد چک سیل نے ایک دوسری مزاحیہ کتاب لکھی لیکن یہ کتاب بری طرح ناکام ہوئی اور اس کی اتنی جلدیں بھی فروخت نہ ہوئیں کہ وہ اس کتاب کی چھپائی کے اخراجات پریس کو ادا کر سکے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…