آج سے کوئی بارہ برس پہلے، میسوری میں کالج کی ایک کم عمر طالبہ رات کو تکیے میں منہ چھپا چھپا کر رویا کرتی تھی۔ اس کے رونے کی وجہ تنہائی کا احساس تھا لیکن آج جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم لگ جاتا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے ملکوں کے کروڑوں باشندے اس کے نام اور اس کی صورت سے آشنا ہیں۔
آج سے بارہ سال پہلے یہ لڑکی سٹیفنز کالج میں اپنی پڑھائی اور رہائش کے اخراجات ادا کرنے کے لیے پریشان رہا کرتی تھی اور وہ اس قدر غریب تھی کہ اسے وقتاً فوقتاً اپنے کالج کے اخراجات ادا کرنے کے لیے اس کی ہم جماعت چوکیدار سے ادھار لینا پڑتا تھا اگر اسے کوئی دعوت ملتی تو وہ اس میں شریک نہیں ہو سکتی تھی۔ کیونکہ اس کے پاس پہننے کے لیے اچھے کپڑے نہ ہوتے تھے۔ اس کی ہم جماعت لڑکیاں اسے پرانے کپڑے پہننے کے لیے دیا کرتی تھیں۔ آج ہائی ووڈ میں وہ غالباً سب سے زیادہ خوش لباس خاتون ہے اور دنیا کے بہت سے ملکوں کی خواتین اس کے لباس کی نقل کرتی ہیں۔ بڑے بڑے درزی اس سے التجائیں کرتے ہیں کہ وہ ان کا سلا ہوا لباس پہن کر تقریبوں میں جائے تاکہ اس بہانے ان کی قسمت بھی جاگ اٹھے۔یہ تنہا، غمزدہ اور بدنصیب لڑکی کون تھی جو اس قدر نادار تھی کہ اپنے لیے نیا لباس بھی نہ خرید سکتی تھی اس کا نام لوسیلی لی سویرا تھا۔ کیا آپ نے یہ نام کبھی نہیں سنا؟ دراصل یہ اس کا اصلی نام ہے لیکن فلمی دنیا میں وہ جان کر افورڈ کے نام سے مشہور تھی۔جان کر افورڈ اب ایک مال دار خاتون ہے لیکن وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ کسی اجنبی شہر میں اگر کوئی شخص کنگال ہو جائے تو اس پر کیا گزرتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ جب انسان بھوک سے نڈھال ہو رہا ہو، اور اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو تو اسے کتنی مصیبتوں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
اسے خبر ہے کہ جب منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے آدمی کو قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے تو اس پر کیا گزرتی ہے اور وہ کس قدر دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔ جان کر افورڈ کابچپن لائن اوکلاہوما میں گزرا۔ جہاں وہ اپنا اکثر وقت لڑکوں کے ساتھ کھیل کود میں گزارتی تھی۔ اس کا سب سے پسندیدہ کھیل اداکاری تھا وہ اور اس کے ساتھ لکڑی کی پرانی پیٹیاں لے کر ان کے سٹیج بناتے۔ اس کے بعد لالٹین سے قدی روشنیوں کا کام لیاجاتا، یہیں سے جان کرافورڈ نے اپنے فن کی ابتداء کی۔
اس نے اسی وقت مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ ایکٹریس بنے گی اور اچھے سے اچھا لباس پہنے گی۔ اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ جب وہ بڑی ہو جائے گی تو سرخ مخمل کا ایسا گاؤن زیب تن کرے گی کہ جس پر سونے کے بٹن لگے ہوئے ہوں اور سر پر ایسا ہیٹ پہنے گی جو انتہائی قیمتی ہو جس میں خوب صورت پر مزین کیے گئے ہوں۔جن جان آٹھ سال کی ہوئی تو اس کی ماں کیناس شہر چلی آئی اور اس نے جان کو کانوئینٹ سکول میں داخل کرا دیا۔
یہاں جان کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کام بھی کرنا پڑتا تھا اب لڑکوں کے ساتھ کھیل کود کا زمانہ ختم ہو گیا تھا۔ لکڑی کے ڈبوں پر اداکاری کا مظاہرہ قصہ ماضی بن چکا تھا۔ ہوسٹل میں رہائش کے عوض اسے چودہ کمروں کی صفائی کرنا پڑتی۔ پچیس بچوں کے لیے کھانا پکانا پڑتا تھا اور برتن مانجنے پڑتے تھے۔ ان بچوں کو نہلانے دھلانے کا کام بھی اس کے سپرد تھا۔چھ سال بعداس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس نے کولمبیا میسوری کے سٹیفنز کالج میں داخلہ لے لیا۔
پیسہ کہاں سے آیا۔ اس کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، وہ اپنی ہم جولیوں کے پرانے کپڑے پہنتی اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے باورچن کے طور پر کام کرتی۔ وہ لڑکیاں جو ان دنوں اس کو غریبی کی وجہ سے نفرت کی نگاہ دیکھتی تھیں۔ آج ٹھنڈی آہ بھر کر کہتیں۔ ’’جان کرافورڈ‘‘ ہاں ہاں میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔ ہم تو کالج بھی ساتھ ساتھ جاتی تھیں۔سٹیفنز کالج اب اس پر فخر محسوس کرتا تھا اور کھانے کے کمرے میں اس کی ایک بہت بڑی تصویر آویزاں تھی۔
جس کے نیچے لکھا ہوا ہے۔ جان کرافورڈ اس کمرے میں لڑکیوں کو کھانا کھلایا کرتی تھی۔اس وقت جان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ رقاصہ بنے۔ چنانچہ جب اسے ایک معمولی سے تھیٹر میں چار پونڈ فی ہفتہ اجرت پر رقاصہ کی حیثیت سے کام کرنے کی پیش کش ہوئی تو وہ خوشی کے مارے پاگل ہو گئی۔ صرف دو ہفتے بعد تھیٹر بند ہو گیا۔ تھیٹر کی مالی حالت یہ تھی کہ مالک کے پاس فن کاروں کی اجرت تک ادا کرنے کے لیے پیسے نہ تھے۔
یوں اسے خالی جیب اجنبی شہر میں مصیبتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ کیا اس ناکامی کے بعد اس کی خواہش نے دم توڑ دیا؟ ہرگز نہیں، اس نے کچھ رقم ادھار لی۔ واپس کیناس شہر پہنچی۔ ملازمت کرکے کچھ روپیہ پس انداز کیا اور ایک صبح گاڑی میں بیٹھ کر شکاگو روانہ ہوگئی۔ ٹکٹ خریدنے کے بعد اس کے پاس صرف دس شلنگ بچے تھے۔ وہ یہ رقم خرچ نہ کرنا چاہتی تھی۔ چنانچہ اس نے دونوں وقت کھانا نہ کھایا۔اسے ایک ہوٹل میں رقاصہ کے طور پر رکھ لیا گیا۔
بعد میں وہ نیو یارک چلی آئی۔ اور ونٹر گارڈن میں ایک کورس گرل کی حیثیت سے رقص کرتی رہی۔ مشہور فلم کمپنی ایم، جی ایم کے نمائندے نے اسے یہاں رقص کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس لڑکی میں جاذبیت بھی ہے اور یہ رقص بھی خوب کرتی ہے۔ اس نے جان کو مشورہ دیا کہ وہ سکرین ٹیسٹ دے۔کیا کہا ’’فلم، قطعی نہیں‘‘ اس نے جواب دیا۔ وہ تو اسٹیج کی مشہور ترین رقاصہ بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد وہ سکرین ٹیسٹ دینے پر رضا مند ہوگئی۔
اسے ہالی ووڈ کے ریلوے ٹکٹ کے علاوہ پندرہ پونڈ کا معاہدہ دیاگیا۔ ہالی ووڈ والوں نے اس کا نام سن کر بہت ناک بھوں چڑھائی۔ ’’لو سیلی لی سویر؟۔‘‘ نام شاعرانہ ضرور ہے لیکن فلم ایکٹریس کے لیے بالکل نہیں جچتا۔ کوئی بھلا مانس نہ تو یہ نام یاد رکھ سکتا ہے اور نہ اس کے ہجے کر سکتا ہے۔ چنانچہ ایک فلمی رسالے نے اس کے لیے مناسب نام منتخب کرنے کے لیے ایک انعامی مقابلہ کرایا۔ رسالے کے قارئین نے ہزاروں نام تجویز کیے۔ آخر کار جان کرافورڈ کے حق میں فیصلہ ہوا۔
لیکن ابھی تک وہ کامیاب اداکارہ نہ بن سکی تھی وہ چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرتی اور رات کو رقص کے لیے ضرور وقت نکالتی۔ اس طرح وہ چارلسٹن، بلیک باٹم اورسینٹ لوئس ہوپ نامی ہوٹلوں میں اپنے رقص کا مظاہرہ کرتی رہی۔ اس نے رقص کے مقابلوں میں جوتوں کے کئی کئی جوڑے توڑنے اور اپنے عقیدت مندوں سے بار بار خراج تحسین وصول کیا۔لیکن اس وقت وہ جان کرافورڈ نہیں تھی جو آج ہے، اس وقت وہ کسی قدر دہرے جسم میں چھوٹی سی لڑکی تھی۔
جس کے بال بہت گھنے تھے اور جو اپنے شرمیلے پن کو چھپانے کے لیے آداب کو بھی نظرانداز کر دیتی تھی پھر ایک روز اسے احساس ہوا کہ اگر اسے ہالی ووڈ میں رہنا ہے تو اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ رات ہی رات میں کامیابی کی خواہش نے اس کا ذہن تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد اس نے کسی ہوٹل میں رقص نہیں کیا۔اس نے پوری دل جمعی اورسنجیدگی سے فرانسیسی اور انگریزی کے علاوہ گانا سیکھنا شروع کیا۔ اپنا وزن کم کرنے کے لیے اس نے تین سال مسلسل فاقے کیے۔
اب بھی اس کے ناشتے میں شربت کے ایک گلاس کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ کبھی کبھی تو وہ دودھ کے ایک گلاس کے سوا دن بھرکچھ نہ کھاتی۔ اس نے خوب دل لگا کر محنت کی، اور اس طرح اسے فلموں میں اچھے کردار ملنے لگے۔ ایک فلم میں ایک افریقی رقص کرتے ہوئے وہ اتنی محو ہو گئی کہ اس نے اپنا ایک ٹخنہ زخمی کر لیا لیکن اس نے کام ادھورا نہ چھوڑا۔ زخم پر پٹی باندھی اور دوبارہ ناچنا شروع کر دیا۔
جان کرافورڈ خود کہتی ہے کہ اسے خود حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیابن گئی ہے۔ اس نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیاتھا۔ اب دولت اس کی لونڈی ہے۔اس کی خاندانی حیثیت کچھ بھی نہیں، لیکن وہ جہاں بھی جاتی ہے۔ اس کے گرد و پیش عقیدت مندوں کا ہجوم لگ جاتا ہے۔ وہ پیدائش کے وقت خوب صورت نہ تھی مگر اب وہ خوب صورت ترین ایکٹریسوں میں سے ایک ہے۔