ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ1918ء کی جس رات کو لائنل بیری مور نے براڈوئے میں ’’دی کوپر بیڈ‘‘ نامی ڈرامے میں ملٹ شیکنس کا کردار ادا کیا۔ اس رات میں بھی اس تھیٹر میں موجود تھا۔ یہ ایک یادگار رات تھی۔ اس ڈرامے نے لاثانی شہرت حاصل کی۔ اور تماشائیوں نے اسے اتنا پسند کیا کہ وہ اپنے پیروں کے پنجوں پر کھڑے ہو کر انتہائی جوش و خروش سے تالیاں بجاتے رہے
اور بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ اداکاروں کو۔۔۔ خاص کر لائنل بیری مور کو سٹیج پر بلایا جائے۔ اس مسلسل مطالبے پر تھیٹر والوں کو پندرہ بار پردہ اٹھانا پڑا۔پندرہ برس بعد براڈوے میں گوڈون میئر کے مرکزی دفتر میں مجھے لائنل بیری مور سے کئی گھنٹے بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ جب اس نے مجھے تفصیل بتائی کہ اسے اپنے آپ کو ایک کامیاب اداکار تسلیم کرانے کے لیے کس قدر جدوجہد کرنا پڑی تو مجھے تعجب ہوا۔ میں نے اس سے پوچھا تم بھی کمال کرتے ہو۔ بیری مور جیسے اونچے اور مشہور خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے تمہیں جدوجہد کرنا پڑے؟ اس نے لمحہ بھر میری طرف دیکھا اور پھرمدھم آواز میں کہنے لگا۔ اونچا اورمشہور خاندان ہوں، خاندانی شہرت تو بعض اوقات اچھی خاصی رکاوٹ بن جاتی ہے۔دراصل بیری مور خاندان کے بچوں کی زندگی بہت عجیب و غریب طریقے سے گزرتی تھی۔ ان کا باپ مورس بیری مور بڑی دلکش شخصیت کا مالک تھا اور اس کے شوق بھی بہت عجیب تھے۔وہ اپنی جیب کی آخری پائی بھی جانور خریدنے پر صرف کر دیتا تھا۔ وہ بحری جہازوں میں ریچھ، بندر اور جنگلی بلیاں لاد لاد کر گھر لایا کرتا تھا۔ جان اور لائنل نے ایک شام جزیرہ سٹیٹن پر گزاری۔ ان کے پاس ایک بوڑھے نوکر اور پینتیس کتوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔جب لائنل جیک اور ایتھل بیری مور نے ’’راسپوٹین‘‘ اور ’’ایمپریس‘‘ میں کام کیا تو ہالی ووڈ نے انتہائی فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ پہلی بار ان تینوں نے ایک ساتھ ایک فلم میں کام کیا لیکن ہالی ووڈ کا یہ اعلان صحیح نہیں تھا۔
بیری مور خاندان کے یہ تینوں نوجوان اس سے کوئی چالیس سال پہلے ایک ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے تھے۔ اداکاری کا یہ مظاہرہ جزیرہ سٹیٹن میں ایک ایکٹر کے مکان کے پچھواڑے میں ایک ٹوٹے پھوٹے چبوترے پر کیا گیا۔ تماشائی کون تھے؟ گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے۔ ٹکٹ کی قیمت صرف ایک پائی تھی اور اس شو سے جو آمدنی ہوئی تھی۔ وہ صرف ایک شلنگ اور تین پنس سے زیادہ نہ تھی۔ انہوں نے کیمیلی ڈرامہ کیا تھا۔
ایتھل اس ڈرامے کا بزنس منیجر تھا۔ اس نے معاوضے کے طور پر لائنل اورجیک کو پانچ پانچ پنس ادا کیے اور ان کی برہمی کی کوئی پرواہ کیے بغیر باقی آٹھ پنس اپنی جیب میں ڈال لیے۔لاینل اور جیک دونوں میں سے ایک کی بھی خواہش نہ تھی کہ وہ اداکار بنیں۔ دونوں آرٹسٹ بننا چاہتے تھے اور لائنل نے تو کچھ عرصہ تک پیرس میں تعلیم بھی حاصل کی تھی۔میں نے اس سے پوچھا کہ کیااسے خالی جیب اور بھوکا بھی رہنا پڑا۔ اس نے جواب دیا، کئی بار۔
کیونکہ رسالوں والے میری بنائی ہوئی تصویریں خریدنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ میں ہر وقت تار دے کر گھر سے پیسے منگوا سکتا تھا اور اکثر منگواتا بھی رہتاتھا لیکن اکثر اوقات میرے پاس تار دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ جیک نے اور میں نے مل کر گاؤں میں ایک سٹوڈیو بھی کھول رکھا تھا لیکن ہمارے پاس فرنیچر کے لیے کوئی پیسہ نہ تھا۔ ہمارے پاس چارپائی تک نہ تھی۔ اس لیے ہم دونوں زمین پر ہی سوتے تھے اور جب سردی زیادہ ہوجایا کرتی تھی تو ہم اپنے آپ کو رسالوں اور کتابوں سے ڈھانپا کرتے تھے۔
ہمارے ساتھ ہمارا ایک دوست بھی رہا کرتا تھا وہ ادیب تھا اور ہماری طرح کنگال۔ اس کے ایک دانت پر سونے کا خوب چڑھا ہواتھا۔ جو اتارا بھی جا سکتا تھا۔ جب ہماری جیب بالکل خالی ہو جاتی تو ہم اس خول کو گروی رکھ کر تھوڑے بہت پیسے لے لیتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم تمام دکانیں چھانا کرتے تھے لیکن ہمیں اس سونے کے عوض کبھی تین شیلنگ سے زیادہ کبھی نہیں ملے تھے۔ چھبیس سال کی عمر میں لائنل بیری مور مشہور اداکار بن چکا تھا۔
اس کا نام براڈوے کے تمام اشتہاری بورڈوں پر جلی حروف میں دکھائی دیتا تھا لیکن تریپن برس کی عمر میں اس کا نام صرف ایک بھولی بسری کہانی بن کر رہ گیاتھا۔ البتہ اس کا نوجوان بھائی مشہور ترین اداکاروں میں سے ایک تھا۔ اور اپنے کام کے عوض بہت پیسہ لیتا تھا۔ اس کی بہن ایتھل نیو یارک تھیٹر کی مالکن تھی۔ اور خود لائنل بیری مور ہالی ووڈ میں ایک ڈائریکٹر کی حیثیت سے کسمپرسی کے دن گزار رہا تھا۔ اس کے دوستوں اور رشتہ داروں کو اس بات کا بہت صدمہ تھا۔
وہ ہمیشہ یہ شکایت کرتے تھے کہ امریکہ کا سب سے اونچا اداکار گم نامی کے دن گزار رہا ہے لیکن خود لائنل بیری مور نے کبھی اس کی شکایت نہیں کی تھی۔اس نے 23 سال تک اسٹیج سے جو تجربہ حاصل کیا تھا۔ اسے فلموں کی ہدایت کاری کی نذر کر دیا۔ وہ ہر وقت سوچتا یا پڑھتا رہتا تھا۔ اس نے نئے تجزیے کیے، وہ پہلا ہدایت کار تھا۔ جس نے یہ دریافت کیا کہ ساؤنڈ کیمروں کو ادھر ادھر گھمایا جا سکتا ہے۔ یہ دریافت بولتی فلموں کی تاریخ میں ایک عظیم الشان انقلاب ثابت ہوئی۔
اس نے کئی ناقابل فراموش فلمیں بنا کر ناخداؤں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان میں رتھ چیٹرکن کی ’’میڈم لارنس ٹبٹ‘‘ کی ’’دی روج سانگ‘‘ اور باربرہ سٹیٹن وک کی ’’ٹین سینٹ اے ڈانس‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اب اس کی عمر تریپن برس ہو چکی تھی اور اسے پوری ایمان داری سے یقین ہو چکا تھا کہ اس کی اداکاری کا زمانہ ختم ہو چکا تھا۔جب وہ اداکاری چھوڑ کر ہدایت کاری کی طرف متوجہ ہوا تو اس پر کامیابی کے دروازے کھل گئے۔ ان دنوں نارما شیرر ’’اے فری سول‘‘ نامی فلم بنا رہا تھا۔
باپ کے ایک مرکزی کردار کے لیے ایک بہت بڑے اداکار کی ضرورت تھی۔ لائنل بیری موراس روپ میں کیمرے کے سامنے آیا اورشہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔اس نے موشن پکچر آرٹس اورسائنس اکیڈمی سے انعام حاصل کیا۔ اس کے بعد وہی فلم ساز جو اسے گزرا ہوا دور سمجھ چکے تھے۔ اسے اپنی فلموں میں کام دینے کے لیے پیچھے پیچھے بھاگنے لگے۔ اس کے بعد اس کی ہر فلم بے حد کامیاب ہوئی۔
ان میں سے ’’دی یے لو ٹکٹ‘‘ ’’ماتا ہری‘‘ اور ’’گرینڈ ہوٹل‘‘، ’’راسپوٹین اینڈ دی ایمپریس‘‘ اور ’’آہ والڈرنس‘‘ آج بھی دنیا کو یاد ہیں۔میں نے لائنل بیری مور سے پوچھا کہ دوبارہ کامیابی کے راستے پر گامزن ہونے سے پہلے کیا وہ کبھی دل برداشتہ بھی ہوا تھا؟ اس نے جواب دیا نہیں میں نے زندگی میں کبھی حوصلہ نہیں چھوڑا۔ زندگی میں کئی نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔ مجھے اپنے کام اور اپنی جستجو سے کبھی اتنی فرصت ہی نہ ملتی تھی کہ اپنی پریشانی کا ماتم کر سکوں۔