ایک روز ایک بھوکا بچہ سکول سے واپسی پر لذیذ بسکٹوں اور پیسٹریوں کا دور سے نظارہ کرنے کے لیے بیکری کی دکان کے سامنے رک گیا۔دکان کا مالک اسے دیکھ کر باہر آیا اور کہنے لگا’’اچھی لگتی ہیں نا۔‘‘ضرور اچھی لگتی ہیں، ’’چھوٹے ڈچ لڑکے نے جواب دیا۔‘‘ بشرطیکہ تمہاری دکان کی نمائشی کھڑکی صاف ہوتی۔’’اچھا یہ بات ہے۔‘‘ چلوتم ہی صاف کر دو۔
اور اس طرح ایڈورڈ بوک کواپنا پیٹ پالنے کے لیے پہلی ملازمت ملی۔ اس کام سے اسے دو شلنگ فی ہفتہ ملتے تھے۔ جو اس کے لیے قارون کے خزانے کے برابر تھے کیونکہ اس کے خاندان کے لوگ اس قدر غریب تھے کہ وہ روزانہ ٹوکری اٹھاکر گندے نالے سے کوئلے چننے کے لیے جایا کرتے تھے۔ جو کوئلے سے چلنے والی گاڑیاں بے کار ہونے پر وہاں پھینک جاتی تھیں۔یہ لڑکا ایڈورڈبوک جب امریکہ پہنچا تو انگریزی زبان سے اس قدر ناآشنا تھا کہ استاد کوئی بات کہتا تو یہ ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکتا تھا۔ اس نے زندگی کے صرف چھ برس سکول میں گزارے تھے۔ اس کے باوجود اس نے امریکی صحافت کی تاریخ میں کامیاب اخبار نویس کی حیثیت سے نام پیدا کیا۔ اسے اس بات کا اعتراف تھا کہ وہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ عورتیں کس قسم کے مضامین پسند کرتی ہیں۔ اس کے باوجود اس نے خواتین کے لیے اتنا اچھا رسالہ نکالا۔ جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی رسالہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس رسالے کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ جس ماہ اس نے اس رسالے سے علیحدگی اختیار کی، رسالے کی اشاعت 2000,000 تھی اور صرف ایک شمارے میں 200,000 پونڈ کے اشتہار شائع ہوئے تھے۔ایڈورڈ بوک نے پورے 23 برس ’’لیڈیز ہوم جرنل‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر وہ ریٹائر ہو گیا۔ اور اپنی داستان حیات کتابی صورت میں قلم بند کی، جس کا نام امریکیائزیشن آف ایڈورڈ بوک ہے۔
بیکری کی دکان کے شیشے صاف کرنے کے بعد ایڈورڈ بوک نے اسی شد و مد سے کام اکٹھے کرنے شروع کر دیا۔ جس شد و مد سے دوسرے بچے ٹکٹیں جمع کرتے ہیں۔ اتوار کی صبح کو اخبار بیچتا۔ ہفتے کی دوپہر اور اتوار کی شام کو لیمن اور برف بیچتا اور شام کے وقت مقامی اخباروں کے لیے سالگرہ پارٹیوں اور دوسری دعوتوں کی اطلاعات لکھتا۔ اس طرح وہ ہفتہ میں چار، پانچ پونڈ کمانے لگا۔ وہ یہ سارے کام سکول سے فارغ ہونے کے بعد کرتا تھا۔
اس وقت اس کی عمر صرف بارہ سال کی تھی اور اسے امریکہ میں آئے ہوئے چھ برس ہوئے تھے۔تیرہ سال کی عمر میں اس نے ویسٹرن یونین میں آفس بوائے کی حیثیت سے ملازمت کرنے کے لیے سکول چھوڑ دیا۔ لیکن اس نے تعلیم کے خیال کو ایک لمحے کے لیے بھی فراموش نہیں کیا۔ اس کے برعکس اس نے اپنے آپ کو خود تعلیم دینا شروع کر دی۔ کئی روز تک بسوں میں سفر کرنے کی بجائے پیدل چل کر اور دو وقت کے کھانے کی بجائے ایک وقت کھانا کھا کر اس نے کچھ روپیہ پس انداز کیا۔
اور اس سے ’’امریکی سوانح عمریوں کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ خرید لایا۔ پھر اس نے ایک ایسا کام کیا، جو اس سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا۔ وہ مشہور آدمیوں کی سوانح حیات پڑھنے کے بعد انہیں خط لکھتا اور ان سے درخواست کرتا کہ وہ اسے اپنے بچپن کے بارے میں زیادہ تفصیلی حالات بھیجیں۔ اس نے جنرل جیمز اے گارڈفیلڈ کو جو اس وقت صدارتی انتخاب کا امیدوارتھا۔ خط لکھا اور پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ ایک بار اس نے نہر پر ایک معمولی مزدور کی حیثیت سے کام کیا تھا۔
اس نے جنرل گرانٹ سے ایک لڑائی کی تفصیل پوچھی۔ گرانٹ نے اس کے لیے ایک نقشہ تیار کیا اور اسے گھر پر کھانے کی دعوت دی اور دیر تک اس سے باتیں کرتا رہا۔اس طرح اس لڑکے نے جو پچیس شلنگ فی ہفتہ کے عوض تار گھر میں کام کر رہا تھا اپنے وقت کے مشہور ترین لوگوں سے شناسائی حاصل کر لی۔ اس نے ایمرسن، فلپس بکس، اولائیووینڈل ہومر، لانگ فیلو مسز ابراہیم لنکن، لوئیسامے الکاٹ اور جنرل شرمن تک سے ملاقاتیں کیں۔
ان معزز لوگوں سے ملنے جلنے سے اس میں خود اعتمادی، وسعت نظر اور پیش قدمی کا جذبہ پیدا ہوا۔ایک روز اس نے دیکھا کہ گلی میں ایک شخص نے سگریٹوں کا پیکٹ کھولا اور اس میں سے ایک تصویر نکالی جو سگریٹ کمپنی کی طرف سے عطیے کے طورپر دی جاتی تھی۔ اور اسے اٹھا کر دور پھینک دیا۔ ایڈورڈ بوک ہمیشہ نئے لوگوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ جن سے متعارف ہو سکے۔ چنانچہ اس نے تصور اٹھائی اور اسے غور سے دیکھا۔
یہ ایک مشہور سیاست دان کی تصویر تھی۔ جس کے پیچھے تصویرکی پچھلی جانب سفید کاغذ تھا۔ بوک نے سوچا کہ اگر تصویر کی پچھلی جانب اس شخص کا تعارف ہوتا تو اسے اتنی بے دردی سے نہ پھینکاجاتا۔اس طرح سے اسے اچھوتا خیال سوجھا۔ وہ دوسرے روز دوپہر کے وقفے میں اس کمپنی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا جو تصویریں چھاپتی تھی۔ وہ اس کمپنی کے انچارج سے ملا۔
اس نے اتنے وثوق اور اعتماد کے ساتھ اپنے موقف کا اظہار کیا کہ وہاں اٹھنے سے پہلے اسے اس قسم کے مختصر تعارف کا سپلائی کرنے کا آرڈر مل چکا تھا اور معاہدے کے مطابق ہرتعارف کا معاوضہ دو پونڈ تھا۔ بعدمیں اسے اتنے آرڈر مل گئے کہ اس کے لیے یہ سارا کام خود کرنا مشکل ہوگیا۔ چنانچہ اس نے بہت سے اخباری رپورٹروں کی خدمات حاصل کر لیں جو ایک پونڈ کے عوض ایک تعارف دیتے تھے۔ اس طرح اسے ایک پونڈ کی بچت ہو جاتی۔
بعد میں اس نے تار گھر کی ملازمت چھوڑ دی اور نشر واشاعت پر زیادہ توجہ دینے لگا۔ چھبیس سال کی عمر میں وہ ’’لیڈیز ہوم جرنل‘‘ کا چارج سنبھالنے کے لیے فلاڈیفیاگیا اور پھر 56 سال کی عمر میں وہ یہ کہتے ہوئے خود ہی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو گیا کہ ’’میں اب تھک گیا ہوں۔‘‘ان تیس برسوں میں اس نے امریکی صحافت میں اپنے لیے ایک لاثانی مقام پیدا کیا۔ یہ سچ ہے کہ اس نے خاصی دولت بھی کمائی تھی۔
لیکن ایک شخص کی کامیابی کا اندازہ صرف دولت سے ہی تو نہیں کیا جاتا۔ اس کے لیے اور بھئی کئی پیمانے ہیں۔ مثال کے طور پرآئیے ہم دیکھیں کہ ایڈورڈبوک نے خود اپنے لیے کیاخدمات انجام دیں۔اس سلسلے کی پہلی کڑی یہ ہے کہ آج امریکہ کے لوگوں کو جو صاف ستھری اشیائے خوردنی ملتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایڈورڈ بوک نے خالص غذا کے قوانین کو رائج کرانے کے لیے بہت جدوجہد کی تھی۔ آج جس شہر میں ہم رہتے ہیں۔
وہ ماضی کی نسبت بہت صاف ستھرا ہے اور اس کا سہرا بھی اس کے سر ہے۔ اس نے شہروں کو گندگیوں سے پاک کرنے کے لیے بڑی موثر مہم چلائی تھی۔ آج ہم جن گھروں میں رہتے ہیں۔ وہ زیادہ خوبصورت اور سجے ہوئے ہیں کیونکہ اس نے وکٹوریہ کے زمانے کی کثافت اور غلاظت کے خلاف زبردست جہاد کیاتھا۔ اس زمانے میں گھروں کے ڈیزائن بہت ناپسندیدہ تھے اور ان کی تعمیر پر خرچ بھی زیادہ آتا تھا۔ ایڈورڈ بوک وہ پہلا شخص تھا۔
جس نے امریکہ کے بہترین ماہرتعمیر کو ملازم رکھا تھا اور اتنے مہنگے داموں گھروں کے ڈیزائن مہیا کرتے تھے کہ لوگوں کو خریدنے میں کوئی دقت نہ ہوتی تھی اور یہ کچھ اس نے اتنی کامیابی سے کیا کہ خود صدر تھیوڈور نے اس کے متعلق کہا تھا کہ ’’میرے نزدیک ایڈورڈ بوک وہ پہلا شخص ہے۔‘‘ جس نے پوری قوم کے فن تعمیر کو مثالی بنا دیا۔رسالے کی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد اسے زندگی کے جو دس سال ملے۔ اس نے باغات لگانے میں صرف کر دئیے۔
اس نے اپنے آبائی وطن ہالینڈ سے پودوں کی ہزاروں قلمیں منگوائیں اورانہیں سڑکوں کے کنارے لگوا دیا۔ اس نے ریلوے اسٹیشن کو خوب صورت سبزہ زاروں میں تبدیل کر دیا لیکن اس کی سب سے زیادہ مشہور اور شہرۂ آفاق یادگار فلوریڈا میں شان دار ’’گاتا ہوا مینار‘‘ جو صحرا کسی زمانے میں ریت کے ٹیلوں سے بھرا پڑاتھا۔ آج سرسبز درختوں اور خوب صورت جھاڑیوں کا ذخیرہ ہے اور ان کے اوپر ایک دو سو فٹ اونچا مینار ہے۔ جو سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ جس میں گھنٹیاں بجتی ہیں اورجس کا عکس پائیں باغ کی جھیل میں دکھائی دیتا ہے۔