آج سے سو برس پہلے بہترین عاشق کس قسم کا ہوتا تھا؟ کس قسم کا شخص ہماری وادیوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو تیز تر کر دیاکرتاتھا۔ اور ہمارے دادا آتش دان کے قریب بیٹھے حسد کی آگ میں جلا کرتے تھے؟ کس قسم کاشخص ہماری دادیوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو تیز تر کر دیا کرتاتھا۔ اور ہمارے دادا آتش دان کے قریب بیٹھے حسد کی آگ میں جلا کرتے تھے؟
اس زمانے میں کون جون ڈاؤن، دانٹائنو اور کلارک گیبل ہوا کرتاتھا!اس کا جواب بڑا آسان ہے۔ آج سے سو برس پہلے جہاں تک عورتوں کا معاملہ ہے۔ کوئی شخص بھی جارج گارڈن لارڈ بائرن کا مقابلہ نہ کر سکتاتھا۔وہ اپنے زمانے کا عظیم ترین شاعر تھا۔ اس کے اثر نے انیسویں صدی میں ادب کا رخ موڑ دیا۔ اس نے انگریزی ادب کی بہترین شاعری تخلیق کی ہے۔ اسے درجنوں عورتوں سے محبت تھی لیکن حیرت کی بات ہے کہ اسے اپنی سوتیلی بہن سے بے حد محبت تھی۔ ان کے معاشقے نے یورپ کو سخت صدمہ پہنچایا اور اس وجہ سے اس لڑکی کی زندگی تباہ ہو گئی۔ جب انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیاگیا تو لارڈ بائرن نے اس حادثے پر ایک خوبصورت نظم لکھی۔ جس کا ایک قطعہ یہ ہے۔اگر ایک طویل مدت کے بعد۔۔۔میں تم سے ملوں۔۔۔میں تمہارا استقبال کیسے کروں گا۔۔۔خاموشی اور آنسوؤں سے۔جوں جوں لارڈ بائرن بدنام ہوتا گیا، عورتوں کو اس سے زیادہ محبت ہوتی گئی۔ وہ اس حد تک اس کی پوجا کرتی تھیں کہ جب بائرن کی بیوی اس کی سرد مہری سے تنگ آ کر اسے چھوڑ کر چلی گئی تو بہت سی عورتوں نے اس کی بیوی کو برابھلا کہا۔ یہ عورتیں بائرن کو عشقیہ خطوط نظمیں لکھا کرتی تھیں اور اپنے بالوں کے گچھے اسے بطور نذرانہ بھیجا کرتی تھیں۔ لندن کے ایک نہایت معزز گھرانے کی لڑکی لڑکوں جیسا لباس پہن کر فقط بائرن کو ایک نظر دیکھنے کے لیے گھنٹوں بارش میں ایک گلی کی نکڑ پر کھڑی رہتی تھی۔
ایک عورت اس کے عشق میں اس درجہ پاگل ہو گئی کہ جب بائرن کو برطانیہ سے جلاوطن کیاگیاتو وہ اس کے پیچھے اٹلی تک گئی اور آخر بائرن کے سمجھانے پر واپس آئی۔اپنے زمانے کا یہ والنئٹائنو، یہ عظیم عاشق آپ کے خیال میں کس قسم کا ہو گا۔ وہ ایک ٹانگ سے لنگڑاتھا۔ وہ ہر وقت اپنے ناخن دانتوں سے چباتا رہتا اور تمباکو چوسا کرتاتھا۔ شکاگو کے کسی کاؤ بوائے کی طرح وہ ہر وقت اپنے پاس پستول رکھتا تھا۔ وہ بے حد تنک مزاج تھا۔
اگر کوئی غور سے اس کی طرف دیکھتا تو اس کا غصہ ایک دم بھڑک اٹھتاتھا۔ کیونکہ اسے یہ احساس ہر وقت تنگ کرتا رہتا کہ لوگ شاید اس کی لنگڑی ٹانگ کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ شاعر جسے اپنے زمانے کا رومیو کہا جاتاتھا۔ عورتوں کو اذیت دینے میں لذت حاصل کرتا تھا۔ اپنی شادی کے فقط دو گھنٹے بعد اس نے اپنی بیوی کو بتا دیا کہ وہ اس سے نفرت کرتا ہے اور اس نے فقط رحم کھا کر اس سے شادی کی ہے۔ اور وہ ایک دن اس سے شادی کرنے پر پچھتائے گی۔
آخر ایسا ہی ہوا۔وہ فقط ایک برس تک ازدواجی رشتے میں بندھے رہے۔ اگرچہ بائرن نے کبھی اسے مارا نہ تھا لیکن وہ غصے میں گھر کا سامان توڑ دیتا۔ اس کے سامنے اپنی محبوباؤں کو گھر لے آتا۔ اس کی بیوی کو اس پر نیم پاگل ہونے کا شبہ ہونے لگا۔ اس سلسلے میں وہ اسے ایک ڈاکٹر کے پاس بھی لے گئی۔اس کے ہمسائے اس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں بتاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی تمام ملازمائیں جوان لڑکیاں تھیں، جوان، خوب صورت اور خوش مزاج لڑکیاں، یہ لڑکیاں بائرن اور اس کے مہمانوں کو شراب پیش کرتیں۔
وہ انسانی کھوپڑیوں کے بنے ہوئے پیالوں میں شراب پیتے۔ بائرن نے یہ انسانی کھوپڑیاں پالش کرا رکھی تھیں اور وہ صحرا میں پورے چاند کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔بائرن کے جسم کی جلد اتنی سفید تھی کہ اس کے قریب رہنے والی عورتیں اس کے جسم کو ایک روشن فانوس سے تشبیہ دیا کرتی تھیں۔ لیکن وہ اس حقیقت سے ناواقف تھیں کہ وہ ایسا نظر آنے کے لیے کس قدر تکلیف برداشت کیا کرتاتھا۔ وہ یہ نہ جانتی تھیں کہ اس کی زندگی کا ہر دن، ہر ساعت موٹاپے کے خلاف مسلسل جنگ تھی۔
خود کو نازک اندام اور خوب صورت رکھنے کے لیے وہ اتنی ہلکی اور کم غذا کھاتا کہ ہالی ووڈ والے بھی ایسی غذا کے متعلق نہیں سوچ سکتے۔مثلاً وہ دن میں فقط ایک بار کھانا کھایا کرتاتھا اور وہ کھانا بھی تھوڑے سے چاولوں اور آلوؤں پرمشتمل ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تبدیلی غذا کے لیے وہ تھوڑے سے خشک بسکٹ کھاتا اور بعد میں سوڈا واٹر پی لیتا۔ خود کو فربہی سے بچانے کے لیے وہ باکسنگ، گھڑ سواری اور تیراکی کرتا۔ کرکٹ کھیلتے وقت وہ تین چار سویٹر پہنتا کہ پسینے سے اس کے جسم کی چربی پگھل جائے۔
اس مقصد کے لیے وہ ترکی غسل بھی کیاکرتا تھا۔اس مضحکہ خیز غذا نے اس کی قوت ہاضمہ تباہ کر دی۔ اس کی خواب گاہ میں دواؤں کے ڈھیر لگے رہتے اور وہ ایک عظیم عاشق کے گھر کی بجائے ایک کیمسٹ کی دکان دکھائی دیتی تھی۔وہ اس قدر پریشان خواب دیکھا کرتاتھا کہ اس نے تنگ آ کر خواب آور گولیاں کھانا شروع کردیں لیکن یہ گولیاں بھی اس کے پریشان خوابوں کا مداوا نہ بن سکیں۔ لہٰذا وہ دو بھرے ہوئے پستول ہر وقت اپنے سرہانے رکھتا۔
اکثر رات کی خاموشی میں وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا اور دانت پسیج کرپستول ہاتھ میں پکڑ کر کمرے کے چکر لگانے لگتا۔لارڈ بائرن جس مکان میں رہتاتھا۔ وہ آسیب زدہ تھا اور وہاں ایک پادری کی روح اکثر آیا کرتی تھی۔ بائرن قسم کھا کر کہا کرتاتھا کہ اس پادری کا آسیب اکثر اسے برآمدوں میں ملتا ہے اور بڑی خوفناک آنکھوں سے اسے گھورتا ہے یہی آسیب اس نے اپنی بدقسمت شادی کے دن بھی دیکھا تھا۔ جب وہ اٹلی میں تھا تو اس نے قسم کھا کر کہا تھا کہ اس نے شاعر شیلے کی روح ایک جنگل میں دیکھی تھی۔
اس لمحے شیلے اس سے ہزاروں میل دور تھا اور بائرن بھی اس حقیقت سے واقف تھا لیکن تھوڑے دنوں بعد شیلے کی موت کی خبر اس تک پہنچ گئی۔ وہ سمندر میں ڈوب گیاتھا۔ اور بائرن نے اسے اپنے ہاتھوں سے دفن کیاتھا۔ایک اور توہم ہر وقت اس کا تعاقب کرتا رہتاتھا۔ ایک نجومی نے اسے بتایا تھا کہ وہ 37 برس کی عمر میں مر جائے گا۔ اپنی 36 ویں سالگرہ کے تین ماہ بعد وہ فوت ہوگیا۔ بائرن کا یقین تھا کہ کوئی مصیبت ان کے خاندان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہ کہا کرتاتھا کہ 36 واں ہندسہ اس کے خاندان کے لیے مہلک ہے۔ بعض جدید سوانح حیات لکھنے والے بائرن کے اس خیال سے متفق ہیں۔ بائرن کا والد بھی 36 برس کی عمر میں فوت ہوا۔ اور بائرن خود بھی بائرن کی بیٹی بھی اپنے دادا اور والد کی طرح 36 ویں سالگرہ پر فوت ہوئی تھی۔