تقریباً ایک سوبرس پہلے کرسمس کے موقع پر لندن میں ایک چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی۔۔۔ ایک ایسی کتاب جس نے غیر فانی بننا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اسے دنیا کی عظیم ترین چھوٹی کتاب کا درجہ دیا ہے۔ جب یہ کتاب پہلے پہل شائع ہوئی تو دوست جہاں کہیں بھی ایک دوسرے سے ملتے، سب سے پہلے یہی پوچھتے کہ ’’کیاتم نے وہ کتاب پڑھی ہے؟‘‘ اور ہر کوئی یہی جواب دیتا ’’ہاں پڑھی ہے۔‘‘
خدا اس کے لکھنے والے پر رحمت نازل کرے۔جس دن وہ کتاب شائع ہوئی اس روز اس کی ایک ہزار جلدیں فروخت ہو گئیں۔ پندرہ دن کے اندر پریس نے اس کی مزید پندرہ ہزار جلدیں شائع کر دیں۔ اس دن سے اس کتاب کے ان گنت ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور وہ دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ چند برس پہلے جے، پی، مورگانا نے اس کتاب کا اصلی مسودہ بہت بڑی رقم خرچ کرکے خریدا تھا، اور اب وہ نیو یارک میں اس کی دوسری بیش قیمت اشیاء کے ساتھ اس کی آرٹ گیلری میں موجود ہے۔ اس عالمی شہرت یافتہ کتاب کا کیا نام ہے۔۔۔ چارلس ڈکنز کی ’’کرسمس گیت‘‘ تقدیر نے چارلس ڈکنز کو انگریزی ادب کا محبوب ترین ادیب بنانا تھا۔ اس کے باوجود جب اس نے لکھنا شروع کیاتو وہ دوستوں کے مذاق سے اس قدر خائف تھا کہ اس نے اپنی پہلی کہانی کا مسودہ رات کی تاریکی میں ڈاک کے سپرد کیا کہ اسے کوئی دیکھ نہ لے۔ اس وقت وہ بائیس برس کاتھا اور جب اس کی پہلی کہانی شائع ہوئی تو وہ سارا دن بے مقصد گلیوں میں گھومتا رہا۔ خوشی کے آنسو اس کے گال بھگو رہے تھے۔ اس کہانی کا معاوضہ اسے کچھ نہ ملا تھا۔ آپ کے خیال میں اس کی اگلی آٹھ کہانیوں کی اشاعت پر اسے کتنے پیسے ملے ہوں گے۔ بالکل کچھ بھی نہیں۔ آخر جب اسے معاوضہ ملنا شروع ہوا تو سب سے پہلے اس کے نام ایک پونڈ کا چیک آیا۔
جی ہاں اس کی پہلی کہانی کا معاوضہ فقط ایک پونڈ تھا۔ لیکن اسے اپنے آخری ناول پرفی لفظ تین پونڈ کے حساب سے معاوضہ ملا۔ ادبی تاریخ میں اس قدر معاوضہ کسی ادیب کو نہیں ملا۔ غور کریں تین پونڈ فی لفظ!لوگ بہت سے مصنفوں کو ان کی موت کے پانچ چھ برس بعد بھول جاتے ہیں۔ لیکن ڈکنز کی موت کے تریسٹھ برس بعد بھی اس کے ناشروں نے اس کے لواحقین کو 40000 پونڈ ’’کرسمس کا گیت‘‘ کا معاوضہ دیا۔ یہ کہانی جو چارلس ڈکنز نے اپنے بچوں کے لیے لکھی تھی۔
گزشتہ ایک سو سال سے چارلس ڈکنز کے ناول بہت بڑی تعداد میں بک رہے ہیں۔ شیکسپیئر کے ڈراموں اوربائبل کے بعد ان کا نام آتا ہے۔ تھیٹر اور فلمی دنیا میں دونوں جگہوں پر وہ بہت مقبول ہوئے۔چارلس ڈکنز کی تعلیمی زندگی چار برس سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے باوجود اس نے انگریزی ادب کے سترہ بہترین ناول لکھے۔ اس کے والدین ایک سکول چلاتے تھے لیکن وہ کبھی اس سکول میں نہیں گیاتھا۔ کیونکہ وہ سکول لڑکیوں کے لیے تھا۔ سکول کے دروازے پر یہ الفاظ لکھے تھے۔
’’مسز ڈکنز کا سکول‘‘ لیکن لندن میں ایک بھی ایسی لڑکی نہ تھی جو اس سکول میں پڑھنے کے لیے آتی ہو۔سکول کا بل روز بروز بڑھ رہاتھا۔ قرض خواہ ہر روز اس کے والد کا دروازہ توڑتے تھے۔ آخر کار انہوں نے غصہ میں آ کر اس کے والد کو قید کرا دیا۔چارلس ڈکنز کا بچپن بڑا تاریک اور قابل رحم تھا۔ جب اس کا والد قید ہوا۔ اس وقت اس کی عمر صرف دس سال تھی۔ کنبے کے لیے گزر اوقات کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ چارلس ڈکنز ہر روز کباڑے کی دکان پر جاتا اور گھر کی کوئی نہ کوئی بچی کھچی چیز فروخت کرتا۔
یہاں تک کہ اسے اپنی دس محبوب کتابیں بھی فروخت کرنا پڑیں۔ بعد میں وہ یہ کہا کرتاتھا۔ ’’جب میں نے کتابیں فروخت کیں تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا دل پھٹ جائے گا۔‘‘آخر اس کی والدہ اپنے چاروں بچوں کو لے کر خود بھی اپنے شوہر کے پاس قید خانے میں رہنے لگی۔ چارلس سارا دن تو والدین اور بہن بھائیوں کے پاس گزارتا۔ لیکن شام کے وقت وہ اس تاریک کمرے میں چلا آتا، جہاں وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ رہتاتھا۔ ان لڑکوں نے اس کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔
آخر کار اسے ایک غلیظ کارخانے میں بوتلوں پر لیبل چسپاں کرنے کی نوکری مل گئی۔ پہلی تنخواہ ملتے ہی اس نے دوسرا کمرہ کرایہ پر لے لیا۔ وہ کمرہ بھی بے حد خستہ حال تھا اور اس کے گوشے میں ہر وقت غلاظت کے ڈھیر پڑے رہتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کمرہ چارلس ڈکنز کے نزدیک ایک بہشت سے کم نہ تھا۔بعد کے ایام میں چارلس ڈکنز نے ’’آلیورٹوسٹ‘‘ کا کردار تخلیق کرکے اپنے بچپن کا انتقام لے لیا۔چارلس ڈکنز نے گھریلو زندگی کے متعلق بڑے جامع اور عمدہ مناظر لکھے ہیں۔
اس کے باوجود اس کی بیاہتا زندگی بے حد ناکام اور ایک المیے سے کم نہ تھی۔ اسے 23 برس تک ایک ایسی بیوی کے ساتھ رہنا پڑا جسے وہ بالکل پیار نہیں کرتا تھا۔ اس بیوی نے اس کے دس بچوں کو جنم دیا لیکن سال بہ سال اس کے دکھوں میں اضافہ ہوتاگیا۔ ساری دنیا اس کے قدموں میں بچھی ہوئی تھی لیکن اس کااپنا گھر تلخیوں کا مجمع تھا۔ آخر کار اس کی گھریلو زندگی اس قدر تلخ ہو گئی کہ اس کی قوت برداشت مزید متحمل نہ ہو سکی۔ لہٰذا اس نے ایک غیر متوقع بات کر دکھائی۔
اس نے اپنے رسالے میں اعلان کر دیا کہ وہ اور اس کی بیوی ایک دوسرے سے جدا ہو چکے ہیں۔ کیا اس نے اس بات کا الزام اپنے سر لیا۔ نہیں بالکل نہیں۔ اس سلسلے میں اس نے سارا الزام اپنی بیوی کے سر ڈالنے کی کوشش کی۔چارلس ڈکنز سخاوت کا مجسمہ تصور کیا جاتاتھا۔ جب وہ فوت ہوا تو اپنی سالی کے لیے 40,000 پونڈ چھوڑ گیا لیکن اپنی بیوی کے لیے وصیت نامے میں فقط سات پونڈ ہفتہ اور وظیفہ لکھ گیا، فقط سات پونڈ ہفتہ وار!وہ ایک مور کی طرح مغرور اور حساس تھا۔
ذرا سی تنقید اسے سیخ پا کرنے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ اسے اپنے چہرے کے خدو خال پر بڑاناز تھا۔ جب 1842ء میں وہ پہلی دفعہ امریکہ گیاتو اس کا رنگین لباس دیکھ کر وہاں کے لوگ حیران رہ گئے۔ وہ عوامی جگہوں پر لوگوں کے سامنے بالوں میں کنگھی کیا کرتا تھا۔ اس کی عجیب و غریب حرکتوں پر لوگ حیران ہونے لگتے۔ آخر انہوں نے اسے تنگ کرنے کی ترکیب سوچی۔ وہ نیو یارک کی جس گلی میں جاتا تو لوگ اپنے سؤر گلیوں میں کھلے چھوڑ دیتے اور ان کو یوں آزادانہ گھومتے دیکھ کر چارلس ڈکنز خوفزدہ ہو جاتاتھا۔جس قدر پیار لوگوں نے چارلس ڈکنز سے کیا۔
شاید ہی کسی دوسرے کو نصیب ہواہو۔ جب وہ دوسری دفعہ امریکہ آیا تو لوگ اس کی تقریر سننے کے لیے کڑی سردی میں ٹکٹ خریدنے کی خاطر قطاریں باندھے کھڑے رہتے اور وقت گزارنے کی خاطر آگ روشن کرکے تاپتے رہتے۔ ایک دفعہ جب تمام ٹکٹ فروخت ہو گئے اور سینکڑوں لوگوں کو مایوس جانا پڑا تو انہوں نے فساد بپا کر دیا۔ادبی تاریخ متضاد کرداروں سے بھری پڑی ہے لیکن چارلس ڈکنز جیسا متضاد شاید ہی کوئی کردار ہو۔