بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

سنکلیر لیوس، وہ چھ ماہ تک دن رات لکھتا رہا مگر اس عرصہ میں فقط چھ شلنگ کما سکا

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہسنکلیر لیوس سے میری پہلی ملاقات بیس برس پہلے ہوئی تھی۔ کئی برس گزر گئے۔ میں اور نصف درجن دوسرے لڑکے لانگ آئی لینڈ میں فری پورٹ کے مقام پر کرایے کی موٹر بوٹ لے کر سمندر میں مچھلیاں پکڑنے جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں میں سنکلیر لیوس کی اس لیے عزت کرتاتھا کہ وہ کبھی سمندر کی ہیبت سے نہ گھبرایا تھا۔

سمندر کی سرکش موجیں کشتی کو ادھر ادھر اچھالتی رہتیں اور اس کے ساتھ ہی میں بھی کشتی میں ادھر ادھر لڑھکتا رہتا۔ لیکن لیوس اپنی جگہ جم کر یوں مچھلیاں پکڑنے میں مصروف رہتا کہ جیسے کسی تصویر پر کوئی شکاری مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہو۔آج بھی میں سنکلیر لیوس کی اسی طرح عزت کرتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ وہ اچھا شکاری ہے۔ بلکہ اس لیے کہ اس نے ان گنت اچھے ناول لکھے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو پڑھ کر دیکھ لیں۔سنکلیر لیوس پہلی دفعہ 1920ء میں منظر عام پر آیا۔ اس سے پہلے وہ چھ کتابیں لکھ چکا تھا مگر انہوں نے ادبی دنیا میں ہلکا سا بھی ارتعاش پیدا نہ کیا۔ اس کاساتواں ناول بڑابازار تھا۔ اس نے انگریز ممالک کو ایک طوفان کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عورتوں کے کلبوں نے اس کی مذمت کی۔ پادریوں نے اسے کوسا۔ اور اخباروں رسالوں نے اس پر کڑی تنقید کی۔ سارے امریکہ میں اس ناول نے ایک ادبی جنگ کا آغاز کر دیا اور تین ہزار میل دور یورپ میں بھی اس کے اثرات نمودار ہونے لگے۔ اس ناول نے اسے صف اول کاادیب بنا دیا۔ بعض نقادوں نے کہا ’’یہ ناول عجیب ہے‘‘ لیکن ’’بے پردہ دوبارہ ایسا ناول نہ لکھ سکے۔‘‘ لیکن مینسوچوتا سے آنے والا سرخ بالوں والا یہ لڑکا جم کر کام کرنے بیٹھ گیا اور اس نے مزید نصف درجن بکری کے لحاظ سے بہترین ناول لکھ مارے۔

سنکلیر لیوس کے ناولوں کے متعلق یہ الفاظ لکھنا زیادتی ہے وہ تو اپنی کتابوں پر بے حد محنت کرتا اور باربار ان پر نظرثانی کرتاتھا۔اس نے ’’ایرو سمتھ نامی‘‘ اپنے ایک ناول کاخاکہ ساٹھ ہزار الفاظ میں لکھا۔ یعنی ایک متوسط ناول سے زیادہ طویل محض ایک ناول کا ڈھانچہ۔۔۔ ایک دفعہ وہ اپنے ناول پر پورے بارہ ماہ کام کرتا رہا لیکن پھر بھی اسے پسند نہ آیا اور اس نے اسے ٹوکری میں ڈال دیا۔اس نے ’’بڑا بازار‘‘ تین مختلف دفعہ لکھنا شروع کیا۔

اسے مکمل کرنے سے سترہ برس پہلے اس نے وہ لکھنا شروع کیاتھا۔ایک دفعہ میں نے سنکلیر لیوس سے پوچھا کہ وہ اپنے بارے کوئی حیرت ناک حقیقت بتائے۔ اس نے لمحہ بھرسوچا اور پھر کہنے لگا اگر میں نے ادبی کام کا آغاز نہ کیاہوتا، تو آکسفورڈ یونیورسٹی میں یونانی زبان یا فلسفہ پڑھانے کو ترجیح دیتا۔ یا پھر جنگلوں وغیرہ میں جا کر شکار کرتا اور وہیں رہتا۔سال میں وہ چھ ماہ ایونیو، نیو یارک میں رہناپسند کرتا، لیکن باقی چھ ماہ وہ برلنگنس سے جنوب مشرق کی طرف اسی میل دور مونٹ پہاڑوں میں ایک الگ تھلگ جگہ پر گزارتا۔

وہاں اس کی 340 ایکڑ زمین تھی۔ جس پر اس نے نیشکر اور سبزیاں لگا رکھی تھیں۔ وہاں اس نے گنے سے خود ہی شربت تیار کرنے کا انتظام بھی کر رکھا تھا۔ وہ قریبی قصبے میں صرف اسی صورت میں جاتا، جب اسے حجامت بنوانا ہوتی۔میں نے اس سے پوچھا، لیوس تمہیں مشہور ہونا کیسالگا ہے؟ اس نے جواب دیا ’’بالکل بکواس‘‘ اگر میں اپنے سارے خطوں کا جواب لکھنے بیٹھ جاؤں تو ایک کتاب بھی نہ لکھ پاؤں اورتو اور رات کی نیند بھی میرے نصیب میں نہ رہے۔

لہٰذا وہ اپنے بیشتر خط آتش دان میں جلا دیتاتھا اور انہیں جلتے ہوئے دیکھتا رہتا۔اسے آٹو گراف دیناپسند نہیں۔ وہ شاذ ہی عوامی دعوتوں میں جاتا ہے وہ ادبی محفلوں میں بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا۔جب میں نے اس سے اس کی ابتدائی جدوجہد کا ذکر کیاتو کہنے لگا۔ ’’اپنی ابتدائی جدوجہد کا ذکر کرنے والے ادیب مجھے برے لگتے ہیں۔‘‘ دراصل زیادہ ادیبوں نے جدوجہد کی ہی نہیں ہوتی۔ پیشہ خواہ کوئی بھی ہو اس میں قدم جمانے کے لیے ابتدا میں ہرشخص کو محنت کرنا پڑتی ہے۔

لیکن ایسے ادیب تو اپنی تکلیفوں کا ذکر کرکے اپنی اہمیت منوانا چاہتے ہیں۔میں نے اسے یاد دلایا کہ کئی برس پہلے ناشتے سے دو گھنٹے پہلے اٹھا کرتاتھا۔ اور کچن میں چولہے پر چائے کا پانی رکھ کر وہیں لکھنے کے لیے بیٹھ جایا کرتا تھا۔ میں نے اسے یہ بھی یاد دلایا کہ ایک دفعہ اس نے تیس پونڈ ادھار لیے تھے اور چھ ماہ تک وہ اپنا کھانا خود ہی پکاتاتھا اور اپنے کپڑے بھی خود ہی دھوتا تھا۔ اس دوران میں وہ فقط ایک لطیفہ دس شیلنگ میں فروخت کر سکتاتھا۔

لیکن اس نے کہا کہ اس میں تو اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ وہ اپنا کام سیکھ رہاتھا اور وہ سال اس کی زندگی کے بہترین سال تھے۔میں نے اس سے پوچھا کہ اب تک اس کے ناولوں کی کتنی جلدیں فروخت ہو چکی ہیں۔ جواب میں اس نے کہا کہ اسے معلوم نہیں، اس نے کبھی اس بات پردھیان نہیں دیا تھا۔میں نے اس سے پوچھا ’’بڑابازار‘‘ سے اس نے کتنی رقم کمائی تھی۔ اس نے جواب دیا کہ حقیقتاً اسے یہ بھی معلوم نہ تھا۔ اس قسم کے کاموں سے نمٹنے کے لیے اس نے ایک وکیل اور ایک اکاؤنٹنٹ رکھا ہوا ہے۔

یہ سب حساب کتاب وہی جانتے ہیں اسے تو لکھنے سے غرض تھی۔اسے ہر قسم کا تجربہ تھا۔ مینسو چوتا میں اس کا والد ایک ڈاکٹر تھا۔ سنکلیر لیوس اپنے والد کے ہمراہ کام کیا کرتا تھا۔ اور آپریشن سے پہلے مریض کو کلورو فارم دیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے باربردار والی کشتی میں کام کرکے بحیرہ اوقیانوس کو عبور کیا۔ ایک زمانے میں وہ بچوں کے لیے نظمیں لکھا کرتاتھا اور امریکی ادیب جیک لندن کے پاس کہانیوں کے پلاٹ فروخت کیا کرتاتھا۔

وہ گونگوں اور بہروں کے ایک رسالے کا مدیر بھی رہ چکا تھا۔اس نے زندگی میں ورزش کبھی نہیں کی۔ وہ جارج جین ناتھاں کی اس بات سے متفق تھا کہ ایک شہری آدمی کے لیے ٹیکسی کا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہونا ہی خاص ورزش ہے۔ اسے کھیلوں میں کوئی دل چسپی نہیں۔ بیس بال کے میدان میں اسے صرف بیب رتھ کا نام یاد ہے اور فٹ بال کے سلسلے میں اس نے ریڈ گریج کا نام سن رکھا ہے۔ ’’تمہیں پہلے تین اخباروں سے نکال دیاگیا تھا؟‘‘

میں نے پوچھا ’’تین نہیں چار اخباروں سے اس نے جواب دیا۔‘‘میرے یہ پوچھنے پر کہ وہ مبتدی ادیبوں کوکیامشورہ دینا چاہتاہے۔ وہ کہنیلگا کس قسم کا مشورہ۔ کسی شخص کو کسی قسم کا مشورہ دینے پر میرا یقین نہیں ہے۔ ایک دن اسے کسی شخص نے ٹیلی فون پر اطلاع دی کہ اس برس اسے ادب کے شعبے میں نوبل پرائز ملنے کافیصلہ ہو چکا ہے۔ سنکلیر لیوس نے سمجھا کہ اس کا کوئی دوست اسے مذاق کر رہا ہے۔ وہ بھی جواب دینے میں اسے مذاق کرنے لگا۔لیکن چند منٹ بعد جب سنکلیر لیوس کو معلوم ہوا کہ نوبل پرائز کی بات مذاق نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے، تو وہ بے حد گھبرایا۔ اسے ادبی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز حاصل ہو چکا تھا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…