ابو حمزہ سکریؒ حدیث کے ایک راوی گزرے ہیں، ’’سُکّر‘‘ عربی زبان میں چینی کو کہتے ہیں، اور ان کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ انہیں ’’سُکّری‘‘ اس لیے کہا جاتا تھا کہ ان کی باتیں ان کا لہجہ اور ان کا انداز گفتگو بڑا دلکش اور شیریں تھا، جب وہ بات کرتے تو سننے والا ان کی باتوں میں محو ہو جاتاتھا، وہ بغداد شہر کے ایک محلے میں رہتے تھے،
کچھ عرصے کے بعد انہوں نے اپنا مکان بیچ کر کسی دوسرے محلے میں منتقل ہونے کا ارادہ کیا، ، خریدارسے معاملہ بھی تقریباً طے ہو گیا۔ اتنے میں ان کے پڑوسیوں ارو محلہ داروں کو پتہ چلا کہ وہ اس محلے سے منتقل ہو کر کہیں اور بسنے کا ارادہ کر رہے ہیں، چنانچہ محلے والوں کا ایک وفد ان کے پاس آیا، اور ان کی منت سماجت کی کہ وہ یہ محلہ نہ چھوڑیں، جب ابوحمزہ سکریؒ نے اپنا عذر بیان کیاتو تمام محلے والوں نے متفقہ طور پر انہیں یہ پیشکش کی کہ آپ کے مکان کی جو قیمت لگی ہے، ہم وہ قیمت آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرنے کو تیار ہیں، لیکن آپ ہمیں اپنے پڑوس سے محروم نہ کیجئے، جب انہوں نے محلے والوں کا یہ خلوص دیکھا تو منتقل ہونے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ابو حمزہ سکریؒ کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کی سحر انگیز شخصیت بھی ہو گی، لیکن بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے پڑوسی کے حقوق کے بارے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ایک مثال قائم کی تھی، قرآن کریم نے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی بار بار تاکید فرمائی ہے اور رسول کریمؐ نے اپنے بہت سے ارشادات میں پڑوسی کے حقوق کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں، یہاں تک کہ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل امین آئے اور مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید وہ پڑوسی کو ترکے میں وارث بھی قرار دے دیں گے۔