جیکب آباد (آن لائن)پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے دماغی امراض اورنفسیاتی مریضوں کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ،توجہ سے ایسے مریض ٹھیک ہوجاتے ہیں ،ان خیالات کااظہار پروفیسرڈاکٹر عالم ابراہیم صدیقی ،پروفیسر ڈاکٹر بدرالدین جونیجو،ڈاکٹر چنی لعل ،ڈاکٹر نعیم بلو،ڈاکٹر موتی رام بھاٹیا،ڈاکٹر عبدالغفورمگسی ،ڈاکٹر عنایت اللہ
اعوان اوردیگرنے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن جیکب آبادکی جانب سے ٹائون ہال میں دماغی اورنفسیاتی امراض سے متعلق سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،ماہر ڈاکٹرزنے نفسیاتی امراض میں مرگی ،ذہنی دبائو ،خودکشی ،مریض کی تشخیص وعلاج ،طبی نامعلوم علامات سمیت مختلف موضوعات پر لیکچر دیتے ہوئے کہاکہ ماضی میں دماغی اور نفسیاتی مریضوں کو کمروں اورگھروں میں بند کرکے رکھا جاتاتھا لیکن اب ایسانہیں ہے روزمرہ کی زندگی میں جومسائل ہرشخص کو درپیش ہورہے ہیں اس میں دماغ اور نفسیات کا گہرا رشتہ ہے یہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ،عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ایک عام تصور یہ ہے کہ ذہنی امراض کا مطلب پاگل پن اور خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دماغ کا صرف پریشان ہونا یا الجھن کا شکار ہونا بھی دماغی مرض ہے اور اس کے لیے کسی دماغی امراض کے ماہر سے رجوع کیا جانا چاہیئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دل کی بیماریوں کے لیے امراض قلب کے ماہر، یا جلدی بیماریوں کے لیے ڈرماٹولوجسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ترقی پذیر ممالک میں 85 فیصد دماغی امراض کے شکار افراد کو کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں، یا وہ شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے اپنا علاج نہیں کرواتے۔ وجہ وہی، کہ دماغی مرض کا
مطلب پاگل پن ہی لیا جاتا ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دماغی امراض میں سب سے عام امراض ڈپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔دماغی امراض کا شکار افراد تشدد پسند ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔درحقیقت دماغی امراض کا شکار افراد کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے وہ کسی بڑے سانحے سے گزرے ہوں، اور انہیں زیادہ دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کی دماغی کیفیت میں تبدیلی آتی ہے اور یہ ایک عام بات ہے۔دماغی امراض کا شکار افراد اگر اپنا مناسب علاج کروائیں، اور ان کے قریبی افراد ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں تو وہ ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، آگے بڑھ سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔مناسب علاج اور دیکھ بھال کے بعد یہ افراد ایک صحت مندانہ زندگی جی سکتے ہیں۔
سمپوزیم کے مہمان خاص ڈپٹی کمشنر آغاشاہنواز بابر اوراعزازی مہمان ڈاکٹر غلام محمد چنہ تھے سمپوزیم کا آغاز ڈاکٹر محمد ہاشم قریشی کی جانب سے تلاوت قرآن پاک سے کیاگیا ،ڈاکٹر محمد اسلم عباسی نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری پڑھی ،پی ایم اے کے صدر ڈاکٹر عبدالغفاررندنے استقبالیہ دیا ،سمپوزیم کے چیئرمین ڈاکٹر وجے کمار وادھوانی ،چیف پیٹرن ڈاکٹر منوہر لعل کالرا ،چیئر مین سائنٹفک کمیٹی ڈاکٹر ہری داس تلریجا ،کو چیئر مین ڈاکٹر گوردھن داس وادھوانی ،جنرل سیکریٹری پی ایم اے ڈاکٹر اشوک کھیٹپال تھے اس موقع پر مہمانوں کو سندھی ٹوپی اجرک کے تحائف سمیت ایوارڈ دیے گئے سمپوزیم میں مختلف ادویات کی کمپنی کی جانب سے اسٹال لگائے گئے تھے سمپوزیم کے اختتامی کلمات ڈاکٹر خالد بھنگر نے ادا کیے جس کے بعد پرتکلف ظہرانہ دیاگیا