اسلام آباد (آئی این پی) ریجنل ڈائریکٹر عالمی ادارۂ صحت ڈاکٹر محمود فکری نے کہا ہے کہ عمومی تاثر کے برعکس ذہنی افسردگی کسی کمزوری کی نشانی نہیں بلکہ معاشرے میں موجود اس مرض سے متعلق غلط معلومات اور اس سے جڑی بدنامی لوگوں کو اس کے علاج کیلئے طبی اور پیشہ وارانہ خدمات کے حصول میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں، (آج) جمعہ کو عالمی یوم صحت کے موقع پر عالمی ادارۂ صحت فرد واحد اور لوگوں
کو ذہنی افسردگی پر بات کرنے اور اس سے متعلق منفی معلومات کی تصحیح کرنے اور معاشرے میں موجوداس مرض سے منسوب باعث بدنامی کے تاثر کو ختم کرنے پر زور دیتا ہے۔ جمعرات کو عالمی یوم صحت پرپیغا م میں انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اس وقت اندازاً تین سو ملین سے زائد لوگ ذہنی افسردگی کا شکار ہیں اور اس تعداد میں گزشتہ 10سالوں میں اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ذہنی افسردگی ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان اداسی کی ایک مسلسل کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ایسے کاموں میں اسکی دلچسپی کم ہوجاتی ہے جن کے کرنے سے وہ لطف اٹھایا کرتا تھا۔ ذہنی افسردگی کسی شخص کو کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ہوسکتی ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں جنگی حالات ہوں۔ وسط شرقی ممالک جو حالت جنگ میں ہیں وہاں ہر پانچ میں سے ایک فرد جنگ کے خوف ٗ عدم تحفظ اور نقل مکانی کے باعث افسردگی اور ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ ریجنل ڈائریکٹر عالمی ادارۂ صحت ڈاکٹر محمود فکری نے کہا ہے کہ عمومی تاثر کے برعکس ذہنی افسردگی کسی کمزوری کی نشانی نہیں بلکہ معاشرے میں موجود اس مرض سے متعلق غلط معلومات اور اس سے جڑی بدنامی لوگوں کو اس کے علاج کیلئے طبی اور پیشہ وارانہ خدمات کے حصول میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ذہنی افسردگی کا علاج موجود ادویات اور پیشہ ور نفسیاتی
ماہر امراض کی موجودگی کی وجہ سے ممکن ہے۔ یہ مرض قابل علاج ہے اور اس مرض پر عدم توجہ اور لاپرواہی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں افسردگی اور ذہنی و دماغی مسائل کے شکار لوگوں کو علاج اور پیشہ وارانہ خدمات یا تو سرے سے موجود ہی نہیں یا پھر بہت محدود پیمانے پر میسر ہیں۔ حتٰی کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی تقریباً پچاس فیصد لوگوں کو ذہنی افسردگی کا علاج میسر نہیں ہے۔
دماغی بیما ریوں سے بچاؤ اور ان کے علاج کیلئے بجٹ مختص کرنا اس بیماری سے بچاؤ کی طرف ایک بہترین قدم ہے۔ ذہنی افسردگی مضمحل کرسکتی ہے اور اگر اس کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو متاثرہ فرد خودکشی بھی کرسکتا ہے جو کہ 15 – 29 سال کی عمر کے لوگوں کے درمیان موت کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔