حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب ہفتِ اقلیم کی بادشاہت عطا کی گئی تو وہ رب کےحضور یہ دعا مانگتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔۔۔”اے اللہ ۔۔۔مجھے آرزو ہے کہ ایک دن تیری ساری مخلوقات جتنے بھی ذی روح ہیں سب کی ضیافت کروں ۔۔۔”ندا آئی کہ “اے سلیمان ۔۔۔ میں سب کی روزی پہنچاتا ہوں ۔۔۔ میری موجودات مخلوقات میں بے انتہا ہے اس لئے سب کو تم نہی ںکھلا سکتے ۔۔۔”
سلیمان علیہ السلام نے عرض کی “اے میرے رب ۔۔۔ تو نے مجھے بہت نعمت دی ہے ۔۔۔ تیری عنایت سے ہی سب کچھ ہے ۔۔۔ اگر تیرا حکم ہو تو میں سب کا طعام تیار کروں ۔۔۔”اللہ رب العزت کا حکم ہوا کہ دریا کے کنارے ایک عالی شان مکان بنواؤ اور اسے نہایت کشادہرکھوتا کہ جس مخلوق کو دعوت دو وہ اس مکان میں با آسانی آ سکے ۔۔۔حکم خداوندی کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس عمارت کی تیاری شروع کروا دی جسکو مکمل ہونے میں تقرییاً ایک سال اور آٹھ مہینے لگ گئے ۔۔۔میدان جیسے کشادہ اس مکان میں بہ افراط کھانے پینے کا سامان و اسباب مہیا کیا گیا ۔۔۔ کم و بیش بائیس ہزار گائیں ذبح کی گئیں اور بہت کثیر تعداد میں دیگیں پکائی گئیں ۔۔۔ مشروبات کے تالاب تھے جن کی تیاری جنات سے کروائی گئی اور ایک پر تکلف قسم کی دعوت کا اہتمام کیا گیا ۔۔۔جب ضیافت کی ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے سارے جہان کی مخلوقات میں منادی کرا کے کھانے کے دعوت دے دی ۔۔۔ساری مخلوقات انسان ۔۔ جن ۔۔ چرند ۔۔۔ پرند ۔۔۔ درندے ۔۔۔ ہر طرح کے کیڑے مکوڑے ۔۔ خشکی ۔۔ تری اور ہوا میں اڑنے والے اور ریگنے والی بھی تمام مخلوق کھانے کی دعوت پہ آ پہنچیں اور اس مکان میں جمع ہو گئیں ۔۔۔
اب سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی عظمت اور قدرت کو دیکھنے کیلئے تمام جمع شدہ مخلوقات کا مشاہدہ کرنا چاہا ۔۔۔ چنانچہ ہوا کو حکم دیا کہ تختِ سلیمان کو اٹھا کر دریا کے اوپر ہوا میں معلق رکھے تا کہحضرت سلیمان علیہ السلام ہر متنفس کو اپنی نظر سے دیکھیں اور اللہ کی قدرتِ کاملہ کا مشاہدہ کر سکیں ۔۔۔!عین اس وقت جب تخت ہوا میں معلق تھا ایک مچھلی نے دریا میں سے سر نکالا اور سلیمان علیہ السلام سے بولی ”
اے اللہ کے نبیّ ۔۔۔ اللہ عزوجل نے مجھے آپکی طرف دعوت پہ بھیجا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے آج تمام مخلوقات کے لئے کھانا تیار کیا ہے ۔۔۔۔ میں اس وقت بہت بھوکی ہوں لہذٰا آپ مجھے پہلے کھانا دے دیجئے ۔۔۔”سلیمان علیہ السلام نے فرمایا “تم ذرا صبر کرو اور باقی سب کو بھی آ لینے دو۔۔۔ پھر ان کے ساتھ جتنا کھانا چاہو کھا لینا ۔۔۔”وہ مچھلی بولی “اے اللہ کے نبیّ میں خشکی پہ اتنی دیر نہیں ٹھہر سکوں گی کہ سب کا انتظارکروں۔۔۔۔”
یہ سن کر سلیمان علیہ السلام نے اجازت دیتے ہوئے کہا “اگر تمہارے لئے ٹھہرنا مشکل ہے تو پھر تم کھانا کھا لو اور جتنا تمہارا جی چاہے کھا لو۔۔۔”یہ سنتے ہی وہ مچھلی دریا سے نکل کر اس میدان نما مکان میں آئی اور جتنا کچھ کھانا وہاں پڑا تھا سارے کا سارا ایک ہی لقمے میں کھا گئی ۔۔۔ پھر سلیمان علیہ السلام کی طرف مڑی اور ان سے مزید کھانا مانگنے لگی ۔۔۔یہ دیکھ کر سلیمان علیہ السلام متعجب ہوئے اور بولے “اے مچھلی ۔۔۔۔
میں نے تمام مخلوقات کے لئے یہ کھانا تیار کیا تھا جو تم نے ایک ہی نوالے میں کھا لیا ۔۔۔ کیا اس سے بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا جو تو اور کھانا مانگ رہی ہے ۔۔۔؟”مچھلی بولی “اے اللہ کے نبیّ ۔۔۔ اللہ تعالٰی مجھے ہر روز تین لقمے رزق دیتا ہے ۔۔۔ اور جو کھانا آپ نے تیار کیا تھا وہ تو سب کا سب صرف ایک ہی لقمہ ہوا ۔۔۔ اب مجھے دو لقمے مزید کھانا درکار ہے تب کہیں میرا پیٹ بھرے گا ۔۔۔ میں آج آپ کی مہمانی میں بھوکی رہی ہوں
اور اگر آپ اسی طرح باقی مہمانوں (مخلوقات) کو بھی کھانا نہیں دے سکے تو آپ نے ناحق انہیں کھانے پہ بلوایا ۔۔۔”سلیمان علیہ السلام مچھلی کی یہ باتیں سن کر حیرت زدہ رہ گئے ۔۔۔ چکرائے اور ان پر غشی طاری ہو گئی ۔۔۔ پھر جب ہوش میں آئے تو ندامت سے سجدے میں گر پڑے اور روتے ہوئے کہنے لگے”اے اللہ میں نے بہت ہی قصور کیا اور تیری درگاہ میں نادانی کی ۔۔۔ میں نادان و مسکین ہوں اور اس بات سے ہمیشہ کے لئے توبہ کرتا ہوں ۔۔۔ بیشک مجھے اور سارے جہان کو رزق دینے والاصرف تو ہی ہے ۔۔