واشنگٹن(این این آئی)درجنوں امریکی سفارت کاروں نے ایک داخلی میمو پر دستخط کردیئے جس میں شام سے متعلق حکومتی پالیسی پر تنقید کی ہے اور اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف ٹارگٹڈ فوجی حملے کیے جائیں۔اس مراسلے پر امریکی محکمہ خارجہ کے درمیانے درجے سے لے کر اعلیٰ درجے تک کے افسران نے دستخط کیے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق خط میں سفارتکاروں نے موقف اختیار کیا کہ موجودہ پالیسی شامی صدر کو طاقت میں رہنے کے لیے مدد فراہم کر رہی ہے اور یہ شامی اپوزیشن کے خلاف ہے۔اس قسم کی اختلافی دستاویز کا محکمہ خارجہ کو بھجوایا جانا غیر معمولی تو نہیں تاہم اتنی بڑی تعداد میں وائٹ ہاؤس کے موقف کے خلاف سفارتکاروں کی جانب سے آواز اٹھنا غیر معمولی ضرور ہے۔ادھرامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس میمو کے موصول ہونے کی تو تصدیق کی ہے تاہم اس کے مواد کے حوالے سے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔خط میں اہلکار جنھوں نے اس دستاویز کو دیکھا ہے کا کہنا ہے کہ اسے بھیج دیا گیا ہے۔دستاویز میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صدر بشارالاسد کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے بصورتِ دیگر ان کی حکومت باغیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی دباؤ محسوس نہیں کرے گی۔اس سے اس خدشے کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ امریکہ اور روس کی جانب سے شام کے لیے اپنائے گئے مشترکہ امن کے عمل کا خاتمہ اسد حکومت کو فائدہ دے رہا ہے۔مگر صدر اسد نے اعلانیہ طور پر عارضی جنگ بندی کا سامنا کیا اور انھیں ایران اور روس کی جانب سے فوجی حمایت حاصل ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ حلب جیسے اہم شہر سمیت سٹیرٹیجک لحاظ سے اہم علاقوں کی دوبارہ عملداری چاہتے ہیں۔ادھر ماسکو کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے جہادیوں کے خلاف کی جانے والی بمباری سیز فائر میں نہیں آتی۔لیکن امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری جو اپوزیشن گروہوں سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں کی مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ شامی حکومت زمین پر صورتحال کو تبدیل کر رہی ہ