ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک سیارہ دریافت کیا ہے جس کے ہالے یا دائرے نظام شمسی کے سیارہ زحل کے ہالوں سے 200 گنا بڑے ہیں۔
یہ پہلی بار ہے کہ ایسی بناوٹ ہمارے شمسی نظام سے باہر دریافت کی گئی ہو۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کے گرد 30 سے زیادہ دائرے یا ہالے ہیں اور ہر ہالے کا قطر دسیوں لاکھ کلومیٹر کا ہے۔
نیدرلینڈز اور امریکی سائنسدانوں کی مشترکہ ٹیم کی یہ دریافت ایسٹرو فزیکل جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہالے میں پڑے وقفوں سے اس بات کے امکانات ہیں کہ کچھ مواد اکٹھا ہو کر چاند بن گیا ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل زحل کے ہالوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
امریکی یونیورسٹی آف روچسٹر کے پروفیسر ایرک کا کہنا ہے ’آپ اس کو سپر زحل کہہ سکتے ہیں۔‘
اس سیارے کے گرد ہالے کا علم سپر واسپ آبزرویٹری میں اکٹھی کی جانے والی معلومات سے ہوا۔ اس رصد گاہ کو معلومات اس وقت ملیں جب چھوٹے سیارچے اپنے مادر ستارے کے سامنے سے گزرے جس کے باعث اس ستارے کی اپنی روشنی مدھم ہوئی۔
اس سیارے کے حوالے سے سائنسدانوں نے دیکھا کہ گرہن 56 روز تک جاری رہا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ بڑے ہالے والے سیارے کا اس ستارے کے سامنے سے گزر رہا تھا جس کے باعث ستارے J1407 کی روشنی رک گئی۔
نیدرلینڈز کی لیڈن یونیورسٹی کے ڈاکٹر میتھیو کین وردی کا کہنا ہے ’ستارے کی روشنی گل ہونا اور دوبارہ چمکنے میں دو ماہ لگے لیکن ہم ایک ہی رات کے وقفے میں بہت کچھ دیکھ سکے۔ آدھے گھنٹے میں ستارے کی روشنی 30 سے 40 فیصد کم ہوئی۔‘
اگر زحل کے رِنگ سیارے J1407b جتنے بڑے ہوتے تو اس کو با آسانی رات کے وقت زمین سے دیکھا جا سکتا اور یہ چاند سے کہیں بڑا نظر آتا۔
پچھلے سال سائنسدانوں نے سیارے کی تلاش کی لیکن اس کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔
ڈاکٹر میتھیو کا کہنا ہے ’اس سیارے کو دیکھنے کے لیے ہم نے ہر قسم کی تکنیک استعمال کی جو ہمارے ذہن میں آئی۔ لیکن اس کو ڈھونڈ نہ سکنے کا مطلب ہے کہ صرف سیارہ ہی اس ہالے کو اپنے گرد قابو میں رکھ سکتا ہے۔‘
اس سیارے کو دریافت کرنی والی ٹیم کا خیال ہے کہ یہ سیارہ مشتری کی طرح گیس کا بہت بڑا مجموعہ ہے لیکن مشتری سے 10 سے 40 فیصد بڑا ہے۔
اس سیارے کو J1407b کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے سائنسدانوں کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ ہمارے شمسی نظام میں کیسے چاند بنتے ہیں۔
پروفیسر ایرک کا کہنا ہے کہ ’سائنسدانوں کا کئی دہائیوں سے خیال ہے کہ مشتری اور زحل جیسے سیاروں کے گرد ابتدائی طور پر طشتریاں ہوں گی جس کے باعث سیارچے بنے ہوں گے۔‘
ماہرِ فلکیات کو اس سیارے کے ہالے میں ایک واضح شگاف ملا ہے۔
ڈاکٹر میتھو کا کہنا ہے ’ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ایک سیارچہ بنا اور یہ شگاف چھوڑ گیا۔ اس سیارچے کا حجم زمین اور مریخ کے درمیان کا ہے۔
سائنسدانوں کی یہ ٹیم فلکیات کے شوقین افراد کو ستارے J1407 کی نگرانی کرنے کا کہہ رہے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اگلا گرہن کب ہو گا۔