ایک موسمیاتی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تپش کی وجہ سے دنیا بھر میں شدید موسم کا خطرہ پہلے کے مقابلے پر دگنا ہو جائے گا، جس سے دنیا کے مختلف حصوں میں شدید خشک سالی اور اس کے بعد تیز بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
امریکہ میں زیادہ تر خشک سالی ہو گی جب کہ مغربی بحرالکاہل کے علاقے میں سیلاب زیادہ عام ہوں گے۔
یہ تحقیق ایک اور شہادت فراہم کرتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی شدید موسموں کا باعث بن رہی ہے۔
حالیہ ڈیٹا کے مطابق بحرالکاہل میں پیدا ہونے والا موسمی مظہر ’لا نینا‘ ماحولیاتی تپش کی وجہ سے تقریباً دگنا ہو کر 23 برسوں میں ایک بار کی بجائے 13 برسوں میں ایک بار ہو جائے گا۔
اس کی وجہ سے موسم میں شدت پیدا ہو جائے گی اور ہر سال دوسرے سال سے مختلف ہو گا۔
دولتِ مشترکہ کے سائنسی اور صنعتی تحقیق کے ادارے کے مرکزی تحقیق کار ڈاکٹر ویجو کائے نے کہا کہ اس کی وجہ سے ’تباہ کن موسمی حالات پیدا ہوں گے جن کے گہرے سماجی اور معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ال نینو اور لا نینا شدید موسم کا باعث بنیں گے اور اس قسم کا موسم زیادہ عام ہوتا جائے گا۔‘
ال نینو اور لا نینا پیچیدہ موسمی پیٹرن ہیں جو استوائی بحرالکاہل میں درجۂ حرارت کے فرق کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، اور ان کے اثرات دنیا بھر پر مرتب ہوتے ہیں۔
’لا نینا‘ کو بعض اوقات اس قدرتی مظہر کا سرد مرحلہ جب کہ ’ال نینو‘ کو گرم مرحلہ کہا جاتا ہے۔
برطانوی ماہرِ موسمیات پروفیسر میٹ کولنز کہتے ہیں سائنس دانوں کو اب بہتر طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ ال نینا اور لا نینا ماحولیاتی تپش سے منسلک ہیں۔
’اس سے پہلے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ ال نینو کے واقعات دگنے ہو جائیں گے، اور اب اس نئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے سرد مرحلے لا نینا کا عمل بھی دگنا ہو گیا ہے۔‘
کسی انفرادی موسمیاتی مظہر کو ماحولیاتی تبدیلی کا باعث قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بین الحکومتی پینل نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دنیا میں 1950 کی دہائی کے بعد زیادہ گرم دن اور گرمی کی لہریں دیکھنے میں آئی ہیں۔
ادارے کا خیال ہے کہ 21ویں صدی کے آخر تک زیادہ موسمی شدت دیکھنے میں آئے گی۔