پیر‬‮ ، 15 ستمبر‬‮ 2025 

چینی ڈرائیور نے انسانی خدمت کی نئی تاریخ رقم کر ڈالی،کلک کر کے تفصیلات پڑھیں

datetime 21  جنوری‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شنگھائی ۔۔۔۔ انسانی ہمدردی اور سخاوت کے ایک حیران کن واقعے میں چین کے ایک شخص نے اپنے سٹیم سیل دور دراز ملک کے ایک اجنبی کو عطیہ کر دیے۔شنگھائی کے ایک ڈرائیور نے سٹیم سیل رجسٹریشن پر خود کو رجسٹر کرواتے ہوئے یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کے سٹم سیل کا میچ اتنی جلدی مل جائے گا اور وہ بھی انگلینڈ سے ایک سات سالہ بچے کا۔ڈرائیور جیانگ یونگفینگ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے سٹم سیل عطیہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ان کا کہنا تھا کہ جب انھیں اس بات کا پتہ چلا تو وہ حیران ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے فیصلے پر بھی خوش ہوئے کہ ان کے سٹیم سیل ایک آٹھ سالہ بچے کو ملیں گے۔کینسر یا دیگر خطرناک بیماریوں کے علاج کے لیے سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ ضروری ہے کہ عطیہ دینے والے شخص اور مریض کی سیل ایک جیسے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا نسلی پس منظر بھی ایک جیسا ہو۔جیانگ یونگفینگ اور اس بچے کے درمیان یہ ڈونر میچ ایک طبی معجزہ ہے۔جیانگ کا عطیہ وصول کرنے والا چھوٹا لڑکا چینی ورثے کا حامل ہے۔ مسٹر جیانگ نے سٹم سیل سکیم میں شامل ہونے کے لیے اپنے تھوک کا نمونہ دیا جبکہ چین میں اس سکیم میں شامل ہونے والے لوگوں کی تعداد عالمی سٹیم سیل کی رجسٹری میں صرف چار فیصد ہے۔چینی ریڈ کراس کے شنگھائی ڈویڑن سے منسلک ڈاکٹر جانگ کا کہنا ہے کہ چین میں رہنے والے کسی شخص اور چین کی سرحدوں کے باہر کسی شخص کے درمیان سٹم سیل میچ غیر معمولی واقعہ ہے۔’امریکہ اور چین میں رہنے والے چینی لوگوں کی تعداد کم ہے اسی لیے زیادہ تر میچ چین کے اندر ہی ہوتے ہیں۔‘ڈاکٹر جانگ کا کہنا تھا کہ شنگھائی ڈیٹا بیس کا استعمال کرتے ہوئے انھیں 13700 میں سے صرف 320 ممکنہ ڈونر ملے ہیں۔سٹیم سیلز ایسے خلیے ہوتے ہیں جو کسی بھی خلیے کی شکل میں ڈھل سکتے ہیں اور ان کی مدد سے کئی قسم کے امراض کا علاج کیا جا سکتا ہے
مسٹر جیانگ یونگفینگ کا کہنا تھا کہ سٹیم سیل عطیہ کرنے کے دوران انھیں کوئی درد محسوس نہیں ہوا اور یہ خون کی منتقلی کے ذریعے ہوا۔ بعض صورتوں میں سیٹم سیل حاصل کرنے کے لیے ڈونر کے کولھے کی ہڈی سے گودا نکالنا پڑتا ہے جو خاصا تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔مسٹر جونگ کو اس طریقے سے کسی بھی طرح کے برے اثرات کا خطرہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے بھی غمگین نہیں ہیں کہ انھیں اس بچے کا نام نہیں معلوم جسے ان کے سیل دیے جائیں گے۔انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس بکھیڑے سے نجات پانا چاہتے ہیں تا کہ ان کے سٹم سیل جلد سے جلد انگلینڈ میں اس چھوٹے بچے کو مل جائیں اور وہ صحت مند ہو جائے اور ایک اچھی زندگی بسر کر سکے۔



کالم



انجن ڈرائیور


رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…