نیویارک(نیوز ڈیسک) تھامس ایڈیسن کے زمانے کے بنائے گئے بلب اگرچہ اب کافی ترقی کر چکے ہیں لیکن یہ بلب اب بھی بجلی کی بڑی مقدار ضائع کرتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ ایک امریکی کمپنی نے ایسا بلب ایجاد کرلیا ہے جو بلب روشن کرنے کے بعد بچ جانے والی توانائی کو ضائع ہونے سے بچا کر واپس بلب کو دے گا جس سے بلب روشنی دینے کا عمل جاری رکھے گا۔امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تھامس ایڈیسن کے ایجاد کردہ عام بلب میں ٹنگسٹن وائر سے بنا فلامنٹ بجلی کی مدد سے توانائی حاصل کرکے 2700 ڈگری سینٹی گریڈ پر بلب کو روشن کرتا ہے لیکن یہ انتہائی غیر مو¿ثر ہیں کیوں کہ یہ روشن ہونے کے اس عمل کے دوران صرف حاصل کردہ توانائی کا 2 سے 3 فیصد روشنی میں تبدیل کرتا ہے جب کہ باقی توانائی ضائع ہوجاتی ہے، ان بلبوں پر یورپی یونین ممالک سمیت کئی دیگر ممالک میں پابندی لگ چکی ہے اور وہاں لوگ اب کمپیکٹ فلوراسینٹ (سی ایف ایل) اور ایل ای ڈی بلب استعمال کر رہے ہیں جو پرانے بلبوں سے زیادہ بہتر کارگردگی دکھاتے ہوئے توانائی کا 13 فیصد استعمال کرلیتا ہے لیکن اب بھی توانائی کا بڑا حصہ ضائع ہورہا تھا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکی تحقیق کے ادارے ایم آئی ٹی میں سائنس دان سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے ایسا بلب ایجاد کرلیا ہے جس نے قدیم بلب کی کمزوری یعنی بجلی کے ضائع ہونے کو اس کا مضبوط پوائنٹ بنا دیا ہے۔سائنس دانوں نے نینو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بلب کے فلامنٹ کے گرد ایک ایسا ڈھانچہ بنا دیا ہے جس میں استعمال ہونے والی تیکنیک بلب سے خارج ہونے والے انفراریڈ شعاعوں کو دوبارہ بلب کے فلامنٹ کی جانب منعکس کرتا ہے جو اسے جذب کر کے پھر روشن ہوجاتا ہے۔ یہ ڈھانچہ لائنٹ کنٹرولنگ کرسٹل کے پتلی لیئرز سے بنایا گیا ہے جو ایک جگہ جمع ہوجاتی ہیں جس سے نظر آنے والی ویو لینتھس کو گزرنے کا راستہ دیتی ہیں جب کہ انفراریڈ شعاعیں منعکس ہوکر فلامنٹ کی طرف منتقل ہوکر اسے روشن کرتی ہیں۔تحقیق کے بانی کا کہنا ہے کہ یہ تیکنک دراصل بلب سے خارج ہونے والی انفرا ریڈ روشنی کو ری سائیکل کرنے کا عمل ہے، اس تیکنیک کی مدد سے قدیم بلب 40 فیصد تک توانائی کے استعمال کے قابل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ بلب سیورز اور ایل ای ڈی بلبوں سے تین گنا زیادہ بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اس تیکنیک کی وجہ سے لوگ اب پھر ایک بار بلب کے دور کی طرف پلٹ آئیں گے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں