پیر‬‮ ، 15 ستمبر‬‮ 2025 

سات مزید قیدیوں کو پھانسی دے دی گئی

datetime 13  جنوری‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد۔۔۔۔پشاور کے آرمی پبلک سکول پر گذشتہ ماہ 16 دسمبر کو شدت پسندوں کے حملے کے بعد ملک کی چار مختلف جیلوں میں سزائے موت کے سات قیدیوں کو منگل کی صبح پھانسی دے دی گئی۔
منگل کو سکھر میں تین، فیصل آباد میں دو جبکہ راولپنڈی اور کراچی میں ایک ایک مجرم کو پھانسی دی گئی۔
مقامی میڈیا کے مطابق سکھر کی سینٹرل ون جیل میں منگل کی صبح ساڑھے چھ بجے کے قریب تین مجرموں کو پھانسی دی گئی۔اس جیل میں پھانسی پانے والوں میں محمد طلحہ، خلیل احمد اور شاہد حنیف ہیں۔ان تینوں شدت پسندوں کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے تھا۔انھوں نے سنہ 2001 میں وزارتِ دفاع کے ایک افسر کو قتل کیا تھا جس کی پاداش میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے انھیں سنہ 2003 میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے منتظر شدت پسند ذوالفقار علی کو پھانسی دی گئی۔ذوالفقار علی سنہ 2003 میں امریکی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے میں ملوث تھے اور ان کا تعلق کالعدم تنظیم سے بتایا جاتا ہے۔انھیں سنہ 2004 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔کراچی سینٹرل جیل میں قتل کے مجرم بہرام خان کو بھی منگل کی صبح پھانسی دی گئی۔بہرام خان نے سنہ 2003 میں ایک وکیل کو قتل کیا تھا۔فیصل آباد میں دو شدت پسندوں نوازش علی اور مشتاق احمد کو سزائے موت دی گئی، ان دونوں پر دہشت گردی کا الزام تھا۔مشتاق احمد پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر راولپنڈی کے علاقے جھنڈا چیچی میں ہونے والے پہلے حملے میں ملوث تھے۔خیال رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے پشاور میں گذشہ ماہ 16 دسمبر کو طالبان شدت پسندوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد سزائے موت پر عمل درآمد کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ سنہ 2008 سے سنہ 2013 کے دوران صرف دو افراد کو پھانسی دی گئی تھی اور ان دونوں کو فوجی عدالت سے پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں اس وقت ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب ایسے قیدی ہیں جنھیں موت کی سزا سنائی جا چکی ہے اور ان کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں۔



کالم



انجن ڈرائیور


رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…