اسلام آباد(نیوزڈیسک) آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے امریکا کے 6 روزہ دورے نے پیرس حملوں کے بعد مزید اہمیت اختیار کر لی ہے اور توقع ہے کہ ان کی امریکی حکام سے مجوزہ ملاقاتوں میں اب زیادہ گہرائی میں جاکر دہشت گردی کے عالمی مسئلہ کا جائزہ لے کر مشترکہ حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ مبصرین اور تجزیہ کار جنرل راحیل شریف کے اس دورے کو پہلے ہی غیر معمولی قراردے چکے ہیں اور انہیں اس دورے سے بڑے نتائج کی توقع ہے۔ماہرین کاخیال ہے کہ 15 سے 20 نومبر تک ہونے والے اس دورے میں اسلام آباد اور واشنگٹن کوخطے میں درپیش سیکیورٹی معاملات،افغانستان کی تازہ صورتحال اور پاکستان میں سول ملٹری عدم توازن پر تبادلہ خیال کیا جائیگا۔یہ دورہ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکا اورصدراوباماسے ملاقات کے چند ہفتوں بعد ہو رہا ہے جس کے باعث اسے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور امکان ہے کہ وزیراعظم کے دورے میں طے ہونے والے معاملات پر اس دورے میں مزید پیشرفت ہوگی۔دورے کے دوران افغان امن عمل اور پاکستانی نیوکلیئر پروگرام پر بھی بات چیت ہوگی۔ماہرین کہتے ہیںکہ دونوں معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نے جنرل راحیل کوخطے کے لئے امریکی ایجنڈے کا اہم حصہ بنا دیا ہے۔دفاعی تجزیہ کارطلعت مسعودکہتے ہیں کہ امریکی جانتے ہیں کہ پاکستان میں اختیارکس کے پاس ہے، یہ دورہ غیرمعمولی حالات میں ہورہا ہے،وہ اس سال میں دوسری بار امریکاجارہے ہیں اور یہ ایک غیرمعمولی بات ہے جس کے غیر معمولی نتائج نکل سکتے ہیں۔پاک فوج کا محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اس دورے میں آرمی چیف علاقائی سلامتی اور پاک افغان سرحد کی تازہ صورتحال سمیت زمینی حقائق کے بارے میں پاکستان کا موقف اجاگر کریں گے۔