اسلام آباد (این این آئی)پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے ملک میں بجلی سے چلنے والی 90 فیصد الیکٹرک بائیکس میں غیر معیاری اور متروک ٹیکنالوجی کی حامل بیٹریاں نصب ہونے کا انکشاف کیا ہے۔پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے حکومت پر زور دیا ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے کے لیے سبسڈی کا خطیر سرمایہ غیر محفوظ اور متروک ٹیکنالوجی پر خرچ نہ کیا جائے بصورت دیگر صارفین کا اعتماد کم ہونے سے ملک میں ماحولیاتی تحفظ کا قومی عزم پایہ تکمیل تک پہنچانے میں دشواری کا سامنا ہوگا۔جاری بیان میں پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں پر دی جانے والی سبسڈی کے باوجود، صارفین کو اب بھی ایک الیکٹرک گاڑی خریدنے کے لیے اپنی جیب سے خاصی رقم ادا کرنا پڑتی ہے، اس لیے حکومت کو صارفین پر یہ زبردستی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ناقص بیٹریوں والی گاڑیاں خریدیں جنہیں جدید ٹیکنالوجی کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں فروخت ہونے والی 90 فیصد سے زائد الیکٹرک دو پہیہ گاڑیاں صرف لیڈ ایسڈ بیٹریوں پر مشتمل ہیں جن پر ایک پرت گرافین کوٹنگ کی گئی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ محض ایک دھوکہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کی بقا اور پائیداری کا معاملہ ہے۔ “اگر صارف ایک بار ناقص معیار کی گرافین کوٹیڈ لیڈ ایسڈ بیٹریوں والی گاڑی خرید کر دھوکہ کھا جائے، تو وہ دوبارہ کبھی الیکٹرک گاڑی خریدنے کی طرف راغب نہیں ہوگا، جس سے حکومت کی تمام کوششیں ضائع ہو جائیں گی جو اس نے الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کیلئے کی ہیں۔وفاقی حکومت نے حال ہی میں پاکستان ایکسیلریٹڈ وہیکل الیکٹریفکیشن پروگرام 2025-30ء کا آغاز کیا ہے۔ یہ ایک ریونیو نیوٹرل اسکیم ہے جو آئی سی ای (ICE) گاڑیوں پر 3 فیصد تک این ای وی (NEV) لیوی سے فنڈ کی جائے گی۔پروگرام کے تحت آٹو انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں 122 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی جائے گی۔ اسکیم کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ صرف وہی الیکٹرک گاڑیاں اس میں شامل ہوں گی جن میں لیتھیئم یا جدید بیٹری ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہو۔
عالمی سطح پر لیتھیئم آئن بیٹریاں اپنی اعلی ٹیکنالوجی اور معیار کے لیے جانی جاتی ہیں۔ یہ بیٹریاں لمبی عمر، تیز رفتار چارجنگ، زیادہ توانائی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت، بہتر کارکردگی اور طویل رینج فراہم کرتی ہیں، جس سے صارفین کو طویل مدت میں بہتر قدر حاصل ہوتی ہے۔پاکستان میں زیادہ تر الیکٹرک دو پہیہ گاڑیاں گرافین کوٹیڈ لیڈ ایسڈ بیٹریوں سے لیس ہیں، جنہیں جعلی طور پر جدید گرافین بیٹریاںکہا جا رہا ہے، حالانکہ ایسی بیٹریاں اب تک تجارتی پیمانے پر دستیاب ہی نہیں ہیں۔انہوں نے کہادلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی مقامی مینوفیکچرر ان بیٹریوں پر 24 ماہ سے زیادہ کی وارنٹی نہیں دیتا، جبکہ لیتھیئم بیٹریاں عام طور پر 5 سال یا اس سے زائد کی وارنٹی کے ساتھ فراہم کی جاتی ہیں۔ڈی جی پامہ عبدالوحید خان نے کہا کہ بعض مفاد پرست عناصر مختلف ممالک کی دو اور تین پہیہ گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت کے اعداد و شمار کو مسخ کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایادنیا بھر میں دو اور تین پہیوں والی تقریبا 1کروڑ الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہوئیں جن میں چین 70 لاکھ یونٹس کی فروخت کیساتھ سرفہرست رہا، اس کے بعد بھارت 13لاکھ یونٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر، ویتنام 2لاکھ 50ہزار اور انڈونیشیا 1 لاکھ 5 ہزار یونٹس کے ساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے۔ڈی جی پامہ عبدالوحید خان نے کہایہ ضروری ہے کہ عوام کو درست معلومات فراہم کی جائیں کیونکہ مذکورہ خبر میں دیے گئے اعداد و شمار حقیقت سے بالکل میل نہیں کھاتے۔انہوں نے کہا کہ ایسی گمراہ کن خبریں مقامی آٹو انڈسٹری اور صارفین دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ایسے ہتھکنڈوں کے دبا میں نہ آئے اور قومی وسائل صرف ثابت شدہ اور محفوظ ٹیکنالوجی کی بیٹریوں پر ہی خرچ کیے جائیں۔