کراچی (این این آئی)بینک دولت پاکستان نے پاکستان کی معیشت کی کیفیت پر سالانہ رپورٹ برائے مالی سال 2022-23 جاری کردی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو مالی سال 23 کے دوران متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، طویل عرصے سے جاری ساختی کمزوریوں نے رسد سے متعلق پے در پے غیر متوقع نوعیت کے ملکی اور عالمی دھچکوں کے اثرات کو بڑھا چڑھا دیا۔
ملک کی میکرو اکنامک صورتِ حال روس یوکرین تنازع، اجناس کی بڑھی ہوئی عالمی قیمتوں، اور غیر منصوبہ جاتی مالیاتی توسیع کے تناظر میں مالی سال 22 کی دوسری ششماہی سے ہی بگڑنا شروع ہو گئی تھی۔ مالی سال 23 کے دوران صورتِ حال سیلاب، آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے 9 ویں جائزے کی تکمیل میں تاخیر، ملک میں مسلسل غیر یقینی حالات، اور سخت ہوتی ہوئی عالمی مالی صورتِ حال کی بنا پر بدتر ہوگئی۔بالخصوص مون سون کے تباہ کن سیلاب نے معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا، مہنگائی کے دباو کو مزید بڑھایا، بیرونی کھاتے پر دباو میں اضافہ کیا اور امدادی کوششوں پر اٹھنے والے اخراجات کی بنا پر مالیاتی عدم توازن کو بڑھایا۔
اسی طرح غیر یقینی عالمی اقتصادی اور مالی صورتِ حال، اجناس کی کم ہونے کے باوجود تاحال بلند عالمی قیمتوں ، قرض کی واپسی کی زائد رقم اور بیرونی رقوم کی پست آمد نے معیشت کے متعدد شعبوں پر اثرات ڈالے۔مذکورہ پیش رفت کے مشترکہ اثرات نے مالی سال 23 میں پاکستان کی میکرو اکنامک کارکردگی کو کافی کمزور کر دیا۔ حقیقی جی ڈی پی کی نمو مالی سال 52 کے بعد تیسری پست ترین سطح پر آ گئی، جبکہ اوسط قومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی بڑھ کر کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی۔کرنٹ اکاونٹ خسارے میں اگرچہ خاصی کمی واقع ہوئی، تاہم بیرونی رقوم کی محدود آمد نے بیرونی کھاتے پر دبا برقرار رکھا جو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں کمی پر منتج ہوا۔ اسی طرح،سود کی ادائیگیوں میں تیزی سے اضافہ، توانائی کے شعبے میں بھاری زراعانت کا تسلسل اور ہدف سے کم ٹیکسوں کی وصولی گذشتہ کئی برسوں کے ناپائیدار مالیاتی پالیسی موقف کی عکاس تھی، جس کی وجہ سے مالی سال 23 میں مالیاتی یکجائی منصوبے سے کم ہو سکی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 23 کے دوران پاکستان کی معاشی کارکردگی مستقل برقرار ساختی مسائل کو حل کرنے کی اہمیت اجاگر کرتی ہے، کیونکہ یہ مسائل ملک کے میکرو اکنامک استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ ان مسائل میں سے اولین مسئلہ ناکافی اور سست رفتار ٹیکس پالیسی اصلاحات ہیں جنہوں نے مالی وسائل کو محدود کر دیا ہے، حتی کہ یہ وسائل جاری اخراجات بھی پورے کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ دوسری جانب، سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں (پی ایس ایز) کی ناقص کارکردگی مالیاتی وسائل پر مسلسل بوجھ ہے، اور ان کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش سکڑ گئی ہے حالانکہ ترقیاتی اخراجات معیشت کی پیداواری استعداد بڑھانے کے لیے ضروری ہیں۔ طبیعی اور انسانی وسائل کے علاوہ تحقیق اور ترقی پر بھی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ٹیکنالوجی پر منحصر مینوفیکچرنگ کی استعداد ٹھٹھر کر رہ گئی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ قدرِ اضافی والی برآمدات کا معیار بڑھایا نہیں جا سکا ہے۔
نیز ، فصلوں کی یافت منجمد ہے،اور غذائی سپلائی چین (food supply chain)کی تشکیل اور غذائی منڈی کے نقائص دور کرنے پر عدم توجہ کا نتیجہ درآمدی غذائی اجناس پر مسلسل انحصار کی صورت میں نکل رہا ہے ۔ یہ رجحانات کرنٹ اکاونٹ کے توازن کی ناپائیداری کو ظاہر کرتے ہیں، جس نے رسد کے عالمی دھچکوں کے مقابلے میں ملک کی زد پذیری (vulnerability) میں اضافہ کر دیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ مختلف شعبوں کے عدم توازن کو دور کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحات کا آغاز کیا جائے تاکہ اقتصادی نمو اور ترقی کے لیے درکار وسائل کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بالخصوص ٹیکس پالیسی کی اصلاحات کی رفتار تیز کرنا اور سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں میں نظم و نسق سے متعلق اصلاحات پر تیزی سے عمل درآمد ضروری ہے تاکہ انسانی اور طبیعی سرمائے میں سرکاری سرمایہ کاری کے لیے مالیاتی گنجائش پیدا کی جا سکے۔
مزید برآں، برآمدی شعبوں میں بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری کی معاونت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کی حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح درآمدات پر انحصار کو کم کرنے اور قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے زرعی شعبے میں اصلاحات درکار ہیں۔ ان اصلاحات کو تیز کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ بلند سطح کی اور پائیدار اقتصادی ترقی کا حصول ممکن بنایا جائے تاکہ لیبر مارکیٹ میں آنے والے نئے افراد کی جگہ بن سکے، سماجی فلاح و بہبود میں بہتری آئے اور ملک میں عام معیار زندگی کو بلند کیا جائے۔اس تناظر میں، اہم میکرو اکنامک متغیرات (variables)، مارکیٹوں، کاروباری اداروں اور انفرادی فلاح و بہبود سے متعلق حقائق پر مبنی معلومات کی دستیابی ثبوت پر مبنی پالیسی سازی کے اہم اجزا ہیں۔
اس رپورٹ میں پاکستان کے قومی شماریاتی نظام (این ایس ایس) کی صورتِ حال کو ہموار کرنے کی ضرورت پر ایک خصوصی باب شامل کیا گیا ہے اور قومی شماریاتی نظام میں اصلاحات کے لیے کچھ تجاویز کی پیش کی گئی ہیں۔رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری کی چند ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ مالی سال 23 کے ختم ہوتے ہوتے پاکستان آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی انتظام کی مد میں 3.0 ارب ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب رہا، جس سے بیرونی شعبے کو مستقبل قریب کے خطرات کم کرنے میں مدد ملی۔ بلند تعدد کے اظہاریے (high frequency indicators) جولائی 2023 سے اشارہ دے رہے ہیں کہ معاشی سرگرمیاں پست ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں ۔ اب جبکہ ترجیحی درآمدات سے متعلق ہدایات واپس لی جا چکی ہیں اور زرِ مبادلہ کی صورتِ حال میں بتدریج بہتری آ رہی ہے، رسدی زنجیر(سپلائی چین) کی صورت حال میں کسی حد تک بہتری آنے اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی کے ساتھ ساتھ برآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔
مزید برآں، کپاس اور چاول کی پیداوار میں متوقع بحالی سے مالی سال 24 کے دوران زرعی نمو میں مدد ملے گی۔ ان حالات پر غور کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کو مالی سال24 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔زری سختی اور سکڑا کے دیگر اقدامات کے تاخیری اثرات سے ملکی طلب قابو میں رہنے کی توقع ہے۔ نیز، اہم فصلوں کی پیداوار اور درآمدات میں ممکنہ اضافے کی وجہ سے رسد کی صورت حال میں بہتری کے امکانات ہیں جس سے مالی سال 24 کے دوران مہنگائی کم ہوکر 20.0 سے 22.0 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔
عالمی اور ملکی نمو کے امکانات تھوڑے بہت بہتر ہونے کی وجہ سے اشیا اور خدمات کی برآمدات سے زرمبادلہ کی آمدنی بڑھنے کی توقع ہے۔ اگرچہ درآمدات کے حجم میں اضافے کا امکان ہے ، تاہم مالی سال 24 کے دوران اجناس کی کم قیمتیں درآمدی بل میں بڑے اضافے کو روک سکتی ہیں۔ ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کا اندازہ ہے کہ مالی سال 24 میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.5 سے 1.5 فیصد تک رہے گا۔