وہ کون ہو گا؟

1  فروری‬‮  2024

عثمان گل عمران خان کے وکلاء کے پینل میں شامل ہیں‘ یہ سائفر‘ توشہ خانہ اور 190 ملین پائونڈز کے کیسز میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کی وکالت کرتے ہیں‘ 29 جنوری پیر کے روز جج ابوالحسنات ذوالقرنین سائفر کیس کی سماعت کے لیے اڈیالہ جیل آئے‘ یہ عدالت کی طرف جا رہے تھے تو عثمان گل نے ان پر ایک نازیبا فقرہ کس دیا‘ جج صاحب نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا‘ سر جھکایا اور عدالت میں چلے گئے‘ عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر جرح ہونی تھی‘

جج صاحب نے اعظم خان کو روسٹرم پر بلایا اور سرکاری وکیل کو شاہ محمود قریشی کی طرف سے جرح کا حکم دے دیا‘ شاہ محمود قریشی کھڑے ہوئے اور انہوں نے شور شروع کر دیا‘ قریشی صاحب اور عمران خان کے وکلاء بھی کھڑے ہو گئے‘ جج صاحب سیدھے ہوئے اور انہوں نے عثمان گل کی طرف دیکھ کر کہا‘ آپ نے باہر جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا تھا‘ میں آپ لوگوں کی عزت کرتا تھا‘ میں نے آپ کو رعایت بھی بہت دی لیکن اب نہیں‘ اب فیصلہ صرف پروسیجر کے مطابق ہو گا اور اس کے ساتھ ہی جج صاحب نے کارروائی شروع کر دی‘ عمران خان توشہ خانہ کیس میں جج محمد بشیر کی عدالت میں تھے‘ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فوراً وائرلیس کرائی اور عمران خان کو عدالت میں طلب کر لیا‘ عمران خان نے جواب دیا‘ میرے وکلاء آئیں گے تو میں آئوں گا‘ جج صاحب نے جیل کے عملے کو سختی سے کہا ’’آپ عمران خان کو فوراً پیش کریں‘‘ اور جیل سٹاف پانچ منٹ میں عمران خان کو عدالت میں لے آیا‘ جج نے کارروائی شروع کی اور 12 گھنٹے کی مسلسل سماعت کے بعد تمام گواہ بھگتا دیے‘ رات کے ساڑھے دس بجے دونوں ملزموں کے 342 کے سوال نامے تیار کرائے اور عدالت اگلے دن (30 جنوری) کے لیے برخاست کر دی۔

30 جنوری کو صبح ساڑھے دس بجے سماعت شروع ہوئی‘ عمران خان اور شاہ محمود قریشی عدالت میں موجود تھے‘ جج صاحب نے دونوں کو روسٹرم پر بلایا اور انہیں 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دے دیا‘ عمران خان نے ہنس کر کہا ’’جج صاحب یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ جج نے سختی سے جواب دیا ’’خان صاحب آپ یہ ڈرامہ بند کریں‘ میں نے آپ کو جتنی رعایت دینی تھی دے دی لیکن آپ نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا‘ آپ جائیں سامنے بیٹھیں اور جواب لکھیں‘‘ عمران خان نے کہا ’’مجھے میرے وکلاء چاہییں‘‘ جج صاحب نے سرکاری وکیل کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’آپ کا وکیل موجود ہے‘ آپ اس کی مدد لیں اور بیان لکھیں‘‘ عمران خان اور شاہ محمود نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دونوں بیٹھ کر بیان لکھنے لگے‘ جج صاحب تھوڑی دیر انہیں دیکھتے رہے اور اس کے بعد انہیں مخاطب کر کے کہا ’’خان صاحب آپ روسٹرم پر آ جائیں اور سٹینو کو براہ راست بیان لکھوا دیں‘‘ عمران خان آئے اور انہوں نے سائفر پر اپنا موقف لکھوانا شروع کر دیا‘ وہ ایک گھنٹہ مسلسل بولتے رہے اور سٹینو ٹائپ کرتا رہا‘ شاہ محمود قریشی اس دوران اپنا بیان لکھتے رہے‘ عمران خان کا بیان مکمل ہوا تو جج نے ان سے آخری سوال کیا ’’خان صاحب سائفر کہاں ہے؟‘‘ خان صاحب کا جواب تھا ’’میں نہیں جانتا‘ وزیراعظم آفس کی سیکورٹی میری ذمہ داری نہیں تھی‘‘ یہ سنتے ہی جج صاحب نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس‘ دس سال قید بامشقت سزا سنائی اور اس کے ساتھ ہی کرسی سے اٹھ کر باہر کی طرف روانہ ہو گئے جب کہ شاہ محمود قریشی چلاتے رہ گئے جج صاحب میرا تو ابھی بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوا مگر جج صاحب ان کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔

30 جنوری کوعمران خان کی توشہ خانہ کیس میں بھی سماعت تھی‘ جج محمد بشیر عدالت پہنچ گئے‘ بشریٰ بی بی بھی عدالت میں موجود تھیں‘ جج نے دونوں کو روسٹرم پر طلب کیا اور انہیں 342 کا سوال نامہ تھما دیا‘ بشریٰ بی بی کے سوال نامے میں 25 جب کہ عمران خان کے 27 سوال تھے‘ جج نے دونوں کو جواب کے لیے 15 منٹ دیے لیکن دونوں نے وکلاء کے بغیر جواب لکھنے سے انکار کر دیا‘ وکیل شہباز کھوسہ نے وکالت کی درخواست دی لیکن جج نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کر دی ’’آپ لوگ کل اپنا حق جرح کھو چکے ہیں‘‘ پندرہ منٹ بعد مزید 15 منٹ دیے گئے‘ اس کے بعد مزید 15 منٹ‘ یہ وقت 6 بار دیا گیا لیکن بشریٰ بی بی اور عمران خان نے جواب تحریر نہ کیا‘ جج چھٹی بار عدالت میں آئے اور انہوں نے سختی سے کہا‘ آپ دونوں کو بہرحال جواب لکھنا پڑیں گے‘ آپ یہ کام جتنی آسانی سے کر لیں گے آپ کے لیے اتنا اچھا ہو گا ورنہ آپ اپنا یہ حق بھی کھو بیٹھیں گے‘ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے شہباز کھوسہ کی طرف دیکھا‘ انہوں نے سر ہلا کر ہاں کر دی اور اس کے بعد دونوں نے جواب لکھنا شروع کر دیے‘ شہباز کھوسہ‘ علی ظفر‘ گوہر خان‘ سلیمان صفدر اور عمیر نیازی ان کی مدد کرنے لگے‘ بشریٰ بی بی کا جواب پہلے تیار ہو گیا‘

سٹینو نے 342 کا بیان ٹائپ کیا‘ بشریٰ بی بی سے اس پر دستخط لیے اور اس کے ساتھ ہی جج صاحب اپنی کرسی سے اٹھ گئے‘ ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ انہیں جیل کے ہسپتال میں لے گیا‘ ان کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا‘ عمران خان کا بیان ابھی جمع نہیں ہوا تھا‘ خان صاحب اپنی کاپی اٹھا کر عدالت میں کھڑے تھے‘ اس دوران ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ واپس آیا اور اس نے اعلان کیا سماعت کل صبح نو بجے تک ملتوی ہو گئی ہے تاہم جج صاحب کا حکم ہے کل صبح نو بجے دونوں ملزم عدالت میں پیش ہوں گے اور خان صاحب کا 342 کا بیان مکمل ہوگا‘ 30 جنوری کو جیل میں لیڈی پولیس کی اضافی نفری موجود تھی‘ اس سے محسوس ہو رہا تھا توشہ خانہ کیس کا فیصلہ بھی آج ہی ہو جائے گا جس کے بعد بشریٰ بی بی کوگرفتار کر لیا جائے گا‘ گوہر خان کو اس صورت حال کا اندازہ تھا چناں چہ انہوں نے بشریٰ بی بی کو جیل سے باہر لے جانے کی کوشش کی مگر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آفتاب باجوہ نے انہیں روک دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’بی بی جج صاحب کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جا سکتیں‘‘ اس جواب سے بھی صورت حال کا اندازہ ہو گیا‘

توشہ خانہ کیس کے دوران دو اور واقعات بھی پیش آئے‘ عمران خان نے اپنے وکلاء سے کہا تحفے مجھے ملے تھے‘ ان میں بشریٰ بی بی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اگر جج بی بی کو چھوڑ دے تو میں اپنا جرم ماننے کے لیے تیار ہوں لیکن وکلاء نے انہیں روک دیا‘ ان کا کہنا تھا جج اس کے باوجود بشریٰ بی بی کو بری نہیں کرے گا لہٰذا آپ کے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ دوسرا جب جج صاحب بیمار ہو گئے تو کمرہ عدالت میں موجود لوگ بشریٰ بی بی کی طرف دیکھنے لگے‘ انہیں بشریٰ بی بی کی روحانی طاقتوں کا یقین ہو گیا‘ عمران خان کی فیملی میں یہ بات دو ماہ سے گردش کر رہی تھی جج محمد بشیر فیصلے سے پہلے ہی مؤکلات کے اثرات کا شکار ہو جائیں گے‘ جج اس کیس کے دوران چھ مرتبہ بیمار ہوئے اور انہوں نے 20جنوری کو بیماری کی وجہ سے ریٹائرمنٹ تک چھٹی کی درخواست بھی دے دی تھی جس سے مؤکلات کا تاثر مزید گہرا ہو گیا‘ عدالتی حلقوں میں یہ افواہ بھی گردش کر رہی تھی جج محمد بشیر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا نہیں دینا چاہتے‘ یہ اس کیس سے بچنا اور نکلنا چاہتے ہیں‘

عین فیصلے کے وقت جج صاحب کی بیماری نے اس تاثر کو بھی گہرا کر دیا بہرحال قصہ مختصر 30 جنوری کو سماعت ملتوی ہو گئی‘کل 31 جنوری کو کیس کی آخری سماعت تھی‘ جج محمد بشیر عملے سمیت 9 بجے عدالت پہنچ گئے لیکن بشریٰ بی بی اور عمران خان عدالت میں نہیں تھے‘ وکلاء بھی نہیں آئے تھے‘ جج صاحب نے عمران خان کو طلب کیا مگر خان نے سیل سے نکلنے سے انکار کر دیا‘ جج نے جیل کے عملے کو حکم دیا اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ عمران خان کو زبردستی لے کر عدالت میں پیش ہو گئے‘ جج نے پوچھا‘ آپ کا 342 کا جواب کہاں ہے؟ خان نے جواب دیا ’’وہ میرے سیل میں ہے‘ آپ مجھے موقع دیں میں لے آتا ہوں‘‘ جج نے اجازت دے دی‘ عمران خان گئے اور پھر سیل سے نکلنے سے انکار کر دیا‘ جج نے انہیں بلایا‘ جیل کے عملے نے بھی کوشش کی مگر وہ نہیں آئے جس کے بعد عدالتی اہلکار نے کوریڈور میں طلبی کی آواز لگائی اور اس کے بعد جج محمد بشیر نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنا دی اور یوں دو مقدموں کی کارروائی مکمل ہو گئی۔

عمران خان کو سزا ہونی تھی اور یہ ہو گئی لیکن اس سزا نے یہ ثابت کر دیا ملک میں ہر الیکشن سے قبل کسی نہ کسی سویلین وزیراعظم کو سزا ضرور ہو گی‘ کوئی نہ کوئی نظام کے گھاٹ پر ضرور چڑھے گا‘ یہ سلسلہ 1958ء میں حسین شہید سہروردی سے شروع ہوا تھا اور آج تک جاری ہے‘ 2018ء میں نواز شریف اپنی صاحب زادی کے ساتھ جیل میں تھے اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھے تھے‘ 2024ء میں عمران خان بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں ہیں اور نواز شریف ’’ون پیج‘‘ سے لطف اٹھا رہے ہیں‘اب ایشو یہ ہے 2024ء کے بعد 2028ء بھی آئے گا اور اس وقت بھی اڈیالہ جیل‘ جج ابوالحسنات ذوالقرنین اور جج قدرت اللہ موجود ہوں گے لیکن سوال یہ ہے اس وقت جیل میں کون ہوگا؟ اس سوال میں ملک کا مقدر چھپا ہے اور میرا خیال ہے اس بار اس مجرم کا فیصلہ آصف علی زرداری‘ نواز شریف اور عمران خان تینوں مل کر کریں گے اور ان تینوں کو ایک وکیل اکٹھا بٹھائے گا اور وہ وکیل کون ہے آپ ذرا ذہن پر زور دے کر سوچیں‘ آپ کو 2028ء کا سیناریو سمجھ آ جائے گا۔

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…