ایک لڑکی کی شادی چمڑا رنگنے والے کے لڑکے کے ساتھ ہو گئی چونکہ چمڑا رنگنے کے کام میں چمڑے کی بدبو آتی ہے تو جب وہ لڑکی اپنے سسرال پہنچی تو اسے گھر میں چمڑا رنگائی کی وجہ سے بہت بدبو آئی۔ مجبوری تھی، کیا کرتی۔۔ خیر اس نے ہر وقت گھر کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے خوب صفائی وغیرہ کرنے کی عادت ڈال لی۔ کچھ عرصے کہ بعد اسے گھر میں سے چمڑے کی بدبو آنی بند ہوگئی۔ لڑکی بہت فخر سے
سب کو بتاتی کہ دیکھو میری صفائی کی وجہ سے چمڑے کی بدبو آنا بند ہو گئی ہے لیکن حقیقت میں یوں ہوا تھا کہ مسلسل اس بدبو دار ماحول میں رہ رہ کر اس لڑکی کی بدبو کو محسوس کرنے والی حِس ہی ختم ہو گئی تھی اور وہ یہ سمجھتی رہی کہ اس کی صفائی کی وجہ سے بدبو ختم ہوگئی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی بدبو والے ماحول میں مسلسل رہے تو اس کی ناک بدبو کو محسوس کرنا ہی چھوڑ دیتی ہے یا کسی خاص ماحول میں مسلسل رہنا شروع کر دے تو پھر اس ماحول کی خرابی اسے خرابی محسوس ہی نہیں ہوتی اور وہ اس خرابی کو خرابی سمجھنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح جب انسان مسلسل گناہ کے ماحول میں رہنا شروع کر دے تو پھر اسے گناہ، گناہ محسوس ہی نہیں ہوتا اور دوسرے لوگوں کے سامنے بھی اپنے گناہ کا ذکر فخر کے ساتھ یا ایک مذاق کے طور پر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ گناہ پہ شرمندہ ہونے والی حس ختم ہو جاتی ہے ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔ اصل تقٰوی یہی ہے کہ انسان اس دنیا کے ماحول میں، جہاں گناہ کے مواقع کثرت سے ملتے ہیں۔ اپنے آپ کو گناہ کی آلودگی سے بچا کر رکھے۔ کسی بزرگ سے تقٰوی کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: تقٰوی اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کا نام ہے کہ جیسے تم اپنے کپڑے کانٹے والی جھاڑیوں میں الجھنے سے بچاتے ہو۔